متحدہ عرب امارات۔۔۔۔ کل سے آج تک

دیار متحدہ عرب امارات

587

پس منظر

جہاں آج متحدہ عرب امارات ہے وہاں تقریباً 541 ملین سال پہلے تک سمندر ہوا کرتا تھا۔ پھر زمین نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی۔ سمندر اپنی سرحدیں ازسرنو متعین کرنے لگا اور یہاں خشکی نمودار ہونے لگی۔ چٹانی تہوں کی تلچھٹ میں اپنی جگہ چھوڑ کر ہجرت کر جانے والے سمندر میں موجود حیوانات کے فوسلز نے پٹرولیم کی وسیع مقدار کی تشکیل شروع کر دی۔ 20 سے 30 ملین سال قبل یہاں زمین میں آتش فشانی شروع ہوئی۔ میگما یا لاوا ابل کر باہر آنے اور زمین کی بیرونی سطح کو مضبوطی دینے لگا۔ یہ عمل آج سے تقریباً 11700 سال پہلے تک گاہے گاہے جاری رہا۔ اسی اثناء میں زمین کی عریبین پلیٹ شمال کی جانب گھومی اور یوریشین پلیٹ سے جا ٹکرائی۔ نتیجتاً خطے کے شمالی حصے نیم پہاڑی یا بلند اور دیگر ریتلے زیریں میدانوں کی صورت میں وجود میں آ گئے۔ خطے میں انسان کے وجود کا سراغ 5 ہزار قبل مسیح میں یعنی پتھر کے زمانے کے وسط سے ملتا ہے۔ اس دور کی تہذیب سُمیر کہلاتی ہے جو کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب تھی اور خلیج فارس اور جنوبی میسوپوٹامیہ کے ساتھ ساتھ موجود تھی۔ متحدہ عرب امارت میں شارجہ کے علاقے ملیحہ میں جبل الفایہ وہ مقام ہے جہاں اس دور میں انسان کے وجود کا سراغ ملتا ہے۔ یہاں جبل البحیص کے علاقے میں دھات کے زمانے اور پتھر کے زمانے کے مدفن موجود ہیں۔ یہ مگن اور سُمیری تہذیب کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دھات کے زمانے میں 2600 سے 2000 قبل مسیح کے درمیان ام النار کے ثقافتی عہد میں یہاں کے لوگ وادی سندھ، بحرین، میسوپوٹامیہ، ایران، وسطی اور مشرقی ایشیاء کے علاقوں سے تجارت کرتے تھے۔ 2000 سے 1300 قبل مسیح کے زمانے میں یہاں خانہ بدوشوں کی حکومت تھی۔ اسی دور میں یہاں آبپاشی کا آغاز ہوا۔ متحدہ عرب امارات میں اسلامی عہد کا آغاز جنگ دِیبا میں ساسانیوں کی شکست کے بعد شروع ہوا۔

برطانوی راج

آج کا راس الخیمہ اور کل کا جلفر اس زمانے میں اس علاقے کا اہم تجارتی مرکز اور سمندری گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خطے کے تاجروں کا سمندری گزرگاہ پر قبضہ ان کے پرتگالی اور برطانوی سلطنتوں سے تعلق رکھنے والے یورپی تاجروں سے تنازعات پر منج ہوا۔ کئی عشروں تک جاری رہنے والے ان جھگڑوں کے بعد ایک ایک کرکے 1820ء سے 1892ء کے دوران خطے میں موجود ریاستوں کے سربراہوں نے برطانوی حکومت کا جزوی غلبہ تسلیم کر لیا اور ان کے ساتھ صلح کے عارضی معاہدے کر لئے جن کے بعد یہ ریاستیں برطانوی حکومت کی تحویل یا حفاظت میں چلی گئیں جو کہ ایک قسم کی بالواسطہ حکومت تھی جس میں مقامی حکمران متعدد معاملات میں آزاد تھے۔ برطانوی حکومت متعدد مقامی معاملات میں معاہدوں کے تحت ان کا حق حکمرانی تسلیم کرتی تھی جبکہ بعض معاملات میں مقامی حکمران تاج برطانیہ کے ماتحت تھے بالخصوص دفاع، معیشت اور خارجہ امور میں۔ برطانوی حکومت نے جن ریاستوں سے معاہدے کئے انہیں مشترکہ طور پر ٹروسیئل سٹیٹس یا الساحل المھادن کا نام دیا۔

تیل کی دریافت

انیسویں سے بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک خطے میں سمندروں سے سیپیاں تلاش کرنے اور سیپیوں سے موتی ڈھونڈنے کی صنعت اپنے عروج پر تھی۔ تاہم پہلی اور دوسری جنگ ہائے عظیم نے اس صنعت کو تباہ کر دیا جس سے ان ریاستوں کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ پھر 1908ء میں ایران اور 1927ء میں عراق، شام اور کویت کے علاقوں سے تیل کی دریافت کے بعد سے برطانوی حکومت، مقامی حکمرانوں اور تیل نکالنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کی توجہ ٹروسیئل سٹیٹس میں تیل کی موجودگی کے امکانات کی جانب مبذول ہو گئی۔ طویل کوششوں کے بعد مارچ 1958ء میں ابو ظہبی کے ساحلی علاقے میں اُم شیف کے مقام سے تیل دریافت ہو گیا جس کے بعد 1962ء سے ٹروسیئل سٹیٹس نے تیل برآمد کرنا شروع کر دیا اور پھر بتدریج مزید مقامات سے تیل دریافت ہوتا چلا گیا۔

آزادی

ٹروسیئل سٹیٹس نے 2 دسمبر 1971ء کو برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کر لی اور ان میں سے 6 ریاستوں ابوظہبی، عجمان، دبئی، فجیرہ، شارجہ اور ام القیوین نے ملکر متحدہ عرب امارات کے نام سے اتحاد قائم کر لیا۔ اسی روز ابوظہبی کے 19 سالہ عبداللہ محمد المیناح کا ڈیزائن کردہ جھنڈا بطور قومی پرچم منتخب کر لیا گیا۔ 10 فروری 1972ء کو ساتویں ریاست راس الخیمہ بھی اس اتحاد میں شامل ہو گئی۔ متحدہ عرب امارات 6 دسمبر 1971ء کو عرب لیگ جبکہ 9 دسمبر 1971ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا۔ فروری 1972ء میں ساتوں ریاستوں کے حکمرانوں نے ملکر فیڈرل نیشنل کونسل کے نام سے 40 رکنی مجلسِ مشاورت قائم کی۔

ماحولیاتی و حیاتیاتی تنوع

About UAE
Pic Credit (https://ssl.gha.com/AnantaraQasr-Al-Sarab-Desert-Resort-by-AnantaraOffersStay-Longer-Special.jpg)

متحدہ عرب امارات کا علاقہ 4 ماحولیاتی خطوں پر مشتمل ہے۔ یہاں اگنے والے نمایاں درختوں میں کھجور، ببول اور یوکلپٹس شامل ہیں۔ نخلستانوں میں گھاس اور متعدد پھول دار پودے بھی ملتے ہیں۔ بے آباد صحرائی اور جنگلی علاقوں میں عربی ہرن، عربی اونٹ اور چیتے ملتے ہیں جبکہ مملکت کے سمندر بے شمار اقسام کی مچھلیوں سے مالا مال ہیں جن میں عام کھائی جانے والی مچھلیوں کے ساتھ ساتھ وہیل اور شارک مچھلیاں بھی شامل ہیں۔ متحدہ عرب امارات کا موسم صحرائی مزاج کا حامل یعنی گرمیوں میں شدید گرم اور سردیوں میں معتدل ہوتا ہے۔ جولائی اگست میں ملک کا اوسط درجہ حرات 45 درجے سینٹی گریڈ رہتا ہے جبکہ جنوری فروری میں 10 سے 14 درجے سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔

سیاسی ڈھانچہ

متحدہ عرب امارات ایک وفاقی آئینی بادشاہت ہے جس میں شامل ساتوں ریاستوں پر علیحدہ علیحدہ شاہی خاندان حکومت کرتے ہیں۔ ملک کا انتظام ساتوں ریاستوں کے حکمرانوں پر مشتمل وفاقی سپریم کونسل چلاتی ہے۔ مرکزی حکومت کو تمام اختیارات نہیں تفویض کئے گئے۔ بیشتر اختیارات ریاستی حکمرانوں کے پاس ہیں۔ تاہم دفاع، خارجہ اور معیشت جیسے معاملات مرکزی حکومت چلاتی ہے۔ وفاقی سپریم کونسل ملک کے صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب کرتی ہے۔ بالعموم ابوظہبی کے سربراہ ملک کے صدر جبکہ دبئی کے سربراہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہیں۔ شیخ زید بن سلطان النہیان ملک کے بانی ہیں اور ساتوں ریاستوں کو متحد کرنے کا سہرا بھی انہیں کے سر ہے۔ وہ آزادی سے لے کر 2 نومبر 2004ء تک ملک کے صدر رہے۔ بعد ازاں وفاقی سپریم کونسل نے ان کے بڑے صاحبزادے شیخ خلیفہ بن زید النہیان کو ملک کا صدر منتخب کر لیا۔

وفاقی حکومت

وفاقی حکومت کے تین شعبے ہیں۔ پہلا شعبہ آئینی و قانونی معاملات کا ذمہ دار ہے جو کہ یک ایوانی وفاقی سپریم کونسل (مقننہ یا پارلیمان) اور مشاورتی وفاقی نیشنل کونسل پر مبنی ہے۔ دوسرا حصہ انتظامیہ پر مشتمل ہے جس کا سربراہ صدر ہوتا ہے جو کہ مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے اور اس کے ماتحت وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ ہوتی ہے۔ تیسرا حصہ عدلیہ پر مشتمل ہے جس میں سپریم کورٹ اور ماتحت وفاقی عدالتیں شامل ہیں۔ عہد حاضر میں متحدہ عرب امارات کی وفاقی حکومت اپنے تمام امور کمپیوٹرائزڈ یا الیکٹرانک فورمیٹ میں یو اے ای ای۔گورنمنٹ کے ذریعے چلاتی ہے۔

معیشت

متحدہ امارات دنیا کے امیرترین ملکوں میں شامل ہے۔ تیل کی فروخت ملک کی معیشت میں کلیدی مقام ضرور رکھتی ہے تاہم دیگر مصنوعات کی تجارت بھی جی ڈی پی میں بہت بڑا حصہ ملاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قدرتی حسن اور عمارات کو دیکھنے، یہاں موجود تفریحی و تاریخی مقامات کی سیر کرنے اور شاپنگ کرنے کی غرض سے ہر سال دنیا بھر سے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد بھی یہاں آتی ہے جس سے ملک کی معیشت کو بے پناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ملک میں موجود تجارتی و صنعتی مراکز اور تعمیراتی شعبے میں روزگار کمانے کیلئے بھی یہاں ماہرین، ہنرمندوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد اپنے اپنے ملکوں سے ہجرت کرکے آتی ہے۔

ریاستیں اور آبادی

متحدہ عرب امارات کا کل رقبہ 77700 مربع کلو میٹر ہے۔ 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی کل آبادی 9599353 افراد پر مشتمل ہے جن میں سے 76 فیصد مسلمان، 13 فیصد عیسائی، 7 فیصد ہندو، 2 فیصد بدھ، 1 فیصد لامذہب جبکہ 1 فیصد دیگر شامل ہیں۔ ابوظہبی کی آبادی 2784490 افراد پر مشتمل ہے اور رقبہ 67340 مربع کلومیٹر ہے۔ عجمان کی آبادی 372922 افراد پر مشتمل ہے جبکہ رقبہ 269 مربع کلو میٹر ہے۔ دبئی کی آبادی 4177059 افراد پر مشتمل ہے جبکہ رقبہ 3885 مربع کلو میٹر ہے۔ فجیرہ کی آبادی 152000 افراد پر مشتمل ہے جبکہ رقبہ 1165 مربع کلو میٹر ہے۔ راس الخیمہ کی آبادی 416600 افراد پر مشتمل ہے جبکہ رقبہ 2486 مربع کلو میٹر ہے۔ شارجہ کی آبادی 2374132 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا رقبہ 2590 مربع کلو میٹر ہے۔ ام القیوین کی آبادی 72000 نفوس ہے جبکہ اس کا رقبہ 777 مربع کلو میٹر ہے۔ ہر ریاست متعدد چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں، بازاروں، تاریخی، تفریحی اور سیاحتی نوعیت کے دیگر مقامات پر مبنی ہے۔ متحدہ عرب امارات کو اگر قدرتی اور مصنوعی حسن کا بھرپور گلدستہ قرار دیا جائے تو یہ قطعاً غلط نہ ہو گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More