فری لانسرز ویزہ کیا ہے؟
وقت بدل رہا۔ چنانچہ سوچ اور سوچنے کے انداز، نظریات اور نظریہ سازی کے اصول اور پیمانے بھی بدل رہے۔ جو کل نہیں ہو رہا تھا اور بُرا یا غلط سمجھا جا رہا تھا، وہ آج ہو رہا ہے اور درست سمجھا جا رہا ہے۔ جو کل درست سمجھا جا رہا تھا اور ہو رہا تھا، آج قابلِ مذمت سمجھا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور دانائی و تفکر کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو وقت کے ساتھ خود نہیں بدلتے، انہیں وقت بدل دیتا۔۔۔۔ مگر بدلنا تو بہرحال پڑتا ہے کہ ثبات اِک تغیر کو ہے زمانے میں! بس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تبدیلیاں مثبت ہوں یعنی مفادِ عامہ میں ہوں اور یہی انسانیت کا اولین تقاضہ ہے۔ چنانچہ یو اے ای کی حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسیز اور طرزِ فکر کو بدل رہی ہے اور مثبت طور پر بدل رہی ہے۔ مفادِ عامہ میں فیصلے کر رہی ہے۔ علاقے، ذات پات، مذہب، قوم اور ملک کی تفریق سے بالاتر ہو کر بہترین فیصلے کر رہی ہے اور غالب امکان ہے کہ یہ فیصلے بہت جلد یو اے ای اور یہاں آںے والے غیرملکی کارکنان، سرمایہ کاروں، طلبہ اور اہلِ فکر و فن سب کے لئے مزید بہتر نتائج لائیں گے۔ اماراتی حکومت کی جانب سے اجتماعی ترقی اور بہتری کے لئے متعارف کروائی جانے والی ایسی ہی پالیسی اصلاحات یا نئے منصوبوں میں سے ایک نہایت زبردست منصوبہ ‘فری لانسرز ویزہ’ سکیم بھی ہے۔
متحدہ عرب امارات کا فری لانسرز ویزہ یہاں متعارف کروائی جانے والی اپنی طرز کی اولین اور منفرد ترین وفاقی ویزہ سکیم ہے کیونکہ اس کے تحت بیرونی دنیا سے یو اے ای آنے کے خواہشمند یا پہلے سے یہاں موجود غیرملکی فری لانسرز یعنی آزادانہ کام کرنے والے افراد اپنے ویزوں کو خود سپانسر کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔
فری لانسرز ویزہ کی خصوصیات کیا ہیں؟
فری لانسرز ویزہ کی بنیادی خصوصیات ماضی کے روایتی اماراتی ویزوں کی خصوصیات سے بہت مختلف ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ ماضی کی اماراتی ویزہ سکیمز کے تحت کارباری دورے پر یو اے ای آنے والے حضرات و خواتین زیادہ سے زیادہ 3 ماہ تک یہاں قیام کر سکتے تھے۔ تاہم، فری لانسرز ویزہ سکیم کے تحت کاروباری دوروں پر یو اے ای آنے والے آزادانہ کاروبار کرنے والے افراد 6 ماہ تک یہاں قیام کر سکیں گے۔
2۔ فری لانسرز ویزہ پر متحدہ عرب امارات میں مقیم آزادانہ کاروبار کرنے والے افراد اپنے اہل خاندان میں سے قریبی ترین رشتہ داروں کے اماراتی ویزوں کو بھی سپانسر کر سکیں گے۔ بالخصوص وہ اپنے والدین کے ویزوں کو سپانسر کر سکیں گے۔ انسانی ہمدردی کے متقاضی کیسز میں ایسے افراد کے والدین کے یو اے ای میں قیام کے اجازت ناموں کی مدت میں ایک سال تک کی توسیع بھی کی جا سکے گی۔
3۔ ماضی کے اماراتی ویزوں میں والدین اپنے بیٹوں کے ویزوں کو صرف ان کے 18 سال کی عمر کو پہنچنے تک سپانسر کر سکتے تھے جب کہ بیٹیوں کے ویزوں کو ان کی شادی سے پہلے تک سپانسر کر سکتے تھے۔ تاہم یو اے ای میں مقیم فری لانسرز ویزہ کے حامل غیرملکی شہری اپنے بچوں کے ویزوں کو ان کے 25 برس کی عمر کو پہنچنے تک سپانسر کر سکیں گے۔
4۔ اب تک کے اماراتی ویزوں کے حامل افراد اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ سے زیادہ 3 ماہ تک یو اے ای میں قیام کر سکتے تھے۔ یہ مدت ختم ہونے پر انہیں اپنے آبائی ممالک کو لوٹنا پڑتا تھا۔ تاہم، فری لانسرز ویزہ کے حامل افراد اپنے کاروبار ختم ہو جانے یعنی اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے سبکدوش ہو جانے کے باوجود 6 ماہ تک متحدہ عرب امارات میں قیام کر سکیں گے۔
5۔ گزشتہ اماراتی ویزوں کے حامل غیرملکی کارکنان کو کسی بھی وجہ سے اپنی ملازمت یا کاروبار ختم ہو جانے کے بعد 3 ماہ کے اندر اندر متحدہ عرب امارات سے لوٹنا پڑتا تھا۔ تاہم، فری لانسرز ویزوں کے حامل غیرملکی یو اے ای میں موجود اپنا کاروبار ختم ہو جانے کے باوجود 6 ماہ تک یہاں مقیم رہ سکیں گے۔ یوں انہیں اپنے کام کو دوبارہ جمانے کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے معقول وقت میسر آ جائے گا اور کامیابی کی صورت میں یعنی نئے سرے سے اپنا کام شروع کر لینے کی صورت میں وہ اپنے ویزہ کی تجدید کروانے اور طویل عرصہ تک یہاں قیام کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔
فری لانسرز ویزہ کے مقاصد کیا ہیں؟
فری لانسرز ویزہ کیٹیگری کے اجراء کے نمایاں مقاصد حسبِ ذیل ہیں:
1۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت گولڈن ویزہ، گرین ویزہ اور فری لانسرز ویزہ وغیرہ کی صورت میں درحقیقت طویل المدت رہائشی ویزے جاری کر رہی ہے جن کے اجراء کا مقصد اماراتی ویزہ پابندیوں میں نرمی کرنا اور اس تاثر کی نفی کرنا ہے کہ یو اے ای کا اقامتی ویزہ حاصل کرنا نہایت مشکل کام ہے اور یہ کہ یہ ویزہ غیریقینی ہوتا ہے کیونکہ اس کا سپانسر کوئی اور شخص یا ادارہ ہوتا ہے اور وہ کسی بھی وقت کسی غیرملکی کی سپانسرشپ کو منسوخ کر کے اسے یہاں سے نکلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
2۔ نہ صرف یہ کہ گولڈن، گرین اور فری لانسرز ویزہ کیٹیگریز زیادہ سے زیادہ غیرملکی سرمایہ کاروں، باصلاحیت اور باکمال ہنرمندوں و فنکاروں اور طلبہ و ماہرین کو متحدہ عرب امارات کی جانب متوجہ کریں گی کہ وہ یہاں آئیں، سرمایہ کاری کریں، کام کریں، روزگار کمائیں اور رہیں بلکہ یہ کیٹیگریز انہیں سپانسر یا کفیل کی ضرورت اور محکومی سے نجات بھی دلائیں گی۔
3۔ نہ صرف یہ کہ یو اے ای کے گولڈن، گرین اور فری لانسرز ویزوں کے حامل غیرملکی ماہرین، طلبہ، سرمایہ کار اور صاحبانِ کمال کفیل یا سپانسر کے جھنجٹ سے مکمل طور پر آزاد ہوں گے بلکہ وہ اپنے کاروبار یا جائیداد کے بھی خود مالک ہوں گے۔
اماراتی حکومت کی جانب سے ان تینوں نئی ویزہ کیٹیگریز کے تحت یو اے ای آنے والوں کو اس قدر مراعات کی پیشکش صاف ظاہر کر رہی ہے کہ عنقریب دنیا بھر کے ہزاروں، لاکھوں افراد امارات کو اپنا نیا وطن بنانے کے لئے تگ و دو شروع کر دیں گے۔