سعودی عرب: الاحساء سے طائف اور تبوک تک
الاحساء کہاں ہے اور کیسا ہے؟
سعودی عرب کا علاقہ الاحساء دُنیا کا سب سے بڑا قدرتی نخلستان ہے۔ یہ علاقہ ریاض اور دمام کے درمیان واقع ہے۔ قدرت اور عہدِ جدید کی رنگا رنگیوں سے آراستہ یہ خطہ مُلک کا ایک مصروف ترین تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کی مرکزی گزرگاہ بھی ہے۔ کسی زمانے میں یہ تاجروں اور دیگر مسافروں کے قافلوں کیلئے اہم قیام گاہ یا سرائے ہوا کرتا تھا جہاں وہ کچھ دیر ٹھہر کر سستایا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنی مرکزی حیثیت کے سبب تاریخ کے طالب علموں کیلئے یہ علاقہ کسی جنت سے کم نہیں کیونکہ خطے کی ہر تہذیب اور ہر قوم کا یہاں قیام رہا ہے یا یہاں سے گزر ہوا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں آپ کو پتھر کے زمانے کے آخری حصے میں بسائی جانے والی بستیوں کے آثار بھی ملیں گے۔ صحرا کے بیچوں بیچ واقع یہ سرسبز و شاداب علاقہ اپنے تاریخی مقام اور حُسن و جمال کے سبب سعودی عرب کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔
اِبراہیم پیلس کیا ہے؟
الاحساء کے وسط میں قائم زمانۂ قدیم سے موجود عالی شان بازار اور پُرانے قصبے کو جوں کا توں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ یہاں آنے والوں کو ابراہیم پیلس جیسی شاندار عمارت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ زمانۂ قدیم میں مقامی افراد یہاں آ کر جدید سعودی عرب کے بانی سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ابراہیم پیلس حقیقتاً فنِ تعمیر کا شاہکار ہے جسے پہلی سعودی سلطنت کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہ ان ابتدائی مقامات میں سے ایک ہے کہ جنہیں فوجی مستقر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تھا۔ بعد ازاں اس عمارت کو گیریژن ہیڈکوارٹرز کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ تاہم اب یہ تاریخی عمارت ایک سیاحتی مقام میں تبدیل ہو چکی ہے۔
2۔ جواثا مسجد
اس عبادت گاہ کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں تعمیر کی جانے والی سب سے پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اِسے عرب قبیلے بنو عبد القیس کے لوگوں نے تعمیر کیا تھا۔ مدینہ میں موجود مساجد کے بعد سعودی عرب بھر میں یہ پہلی مسجد تھی کہ جہاں باجماعت نمازوں کا اہتمام کیا جانے لگا تھا۔ مسجد کی اصل عمارت کو ہونے والے نقصان کے باوجود اِس کی نئی عمارت کو پرانی بنیادوں ہی کو بحال کر کے تعمیر کیا گیا ہے۔ اپنے خوبصورت طرزِ تعمیر اور تاریخی حیثیت کے سبب جواثا مسجد کو سعودی عرب کے اہم اور دلکش ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
3۔ شُبرا محل ریجنل میوزیم
بیسویں صدی کی پُرشکوہ عِمارت شُبرا محل کو طائف کا امتیازی نشان سمجھا جاتا ہے۔ طائف سعودی عرب کے جنوب مغرب میں واقع صوبے مکہ کا ایک اہم شہر ہے۔ طائف کے شُبرا پیلس ریجنل میوزیم میں زمانہ قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے بہت سے نوادرات اور فن پارے رکھے گئے ہیں۔ شہر میں ایک شاندار، خوبصورت اور پُرسکون نیشنل پارک بھی ہے جس میں انگنت درختوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا ڈیم بھی موجود ہے۔ اگر آپ موسم سرما میں سعودی عرب آئیں تو اس مقام کا موسم اور رنگینیاں آپ کو اپنے جوبن پر ملیں گی۔ شُبرا محل طائف کی ایک تاریخی عمارت ہے جسے 1905ء میں شریفِ مکہ علی پاشا نے تعمیر کروایا تھا۔ 1995ء میں اس محل کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ طائف آمد پر شاہ عبد العزیز اور شاہ فیصل اسی محل میں رہا کرتے تھے۔
4۔ تبوک
تبوک کو اگر خزائنِ قدیم کی سرزمین کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ یہ شہر عہدِ قدیم کے عجائبات سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں آپ معروف آثارِ قدیمہ سے لے کر نہایت شفاف ساحلوں تک بہت کچھ دریافت کر سکتے ہیں۔ شہر کے دلکش ترین مقامات میں سے ایک صحرا میں واقع مغائرِ شعیب اور مقنا کے قریب واقع عیونِ موسیٰ ہیں۔ قلعہ تبوک بھی یہاں کا ممتاز مقام ہے جسے 1559ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اب اِسے عجائب گھر کا درجہ دیا جا چُکا ہے۔ جہاں تاریخی نوادرات اور فن پاروں سے آراستہ کئی کمرے ہیں جن میں سے بیشتر سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے کے ہیں۔ یہاں آپ تبوک کی تاریخ کے متعدد آثار دیکھ سکتے ہیں۔
قلعہ تبوک کے گراؤنڈ فلور پر ایک مسجد بنائی گئی ہے جس کا صحن بہت وسیع ہے۔ قلعے کے صحن سے دوسری منزل تک سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ قلعے میں متعدد واچ ٹاورز بھی موجود ہیں۔ قِلعے میں ایک مقام ایسا بھی ہے جو بعض تاریخی حقائق کی عکاسی کرتا ہے جیسے کہ تبوک شہر کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق۔ قلعے میں قائم عجائب گھر نے تبوک آنے والی بعض دیگر اہم شخصیات مثلاً ابنِ بطوطہ اور اولیا چلبی کی یادوں کو بھی محفوظ کر لیا ہے۔ یوں یہاں آنے والے سیاح منفرد تاریخی حقائق کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، یاد رہے کہ تبوک آنے والے سیاح ہفتے سے جمعرات تک کسی بھی دن صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک جب کہ جمعہ کے روز صرف دوپہر 3 بجے سے شام 5 بجے تک ہی اس قلعے میں آ سکتے ہیں۔
یہ قلعہ تبوک آنے والے تاریخ کے طالب علموں کیلئے اکلوتا اہم مقام ہرگز نہیں کیونکہ یہاں ایک مقام ایسا بھی ہے کہ جو اس قلعے اور اس میں قائم عجائب گھر سے کہیں زیادہ اہم ہے۔۔۔ اور وہ ہے التوبہ مسجد۔ اِس مسجد کے ذِکر کے بغیر سعودی عرب میں تاریخی مقامات کی کہانی کسی صورت مکمل نہیں ہوتی۔ بازنطینیوں کے خلاف غزوۂ تبوک کے لئے 630 عیسوی میں 3 ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے ہمراہ یہاں آمد پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی مسجد میں نماز ادا کی تھی۔ تاہم، یہ جنگ شروع ہوئے بغیر ہی ٹل گئی تھی۔ اس حوالے سے دیگر تفصیلات قرآن مجید کی سورۂ توبہ میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اس مسجد کی عمارت کی تعمیرِ نو 1652ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے عہد میں ہوئی تھی لیکن یہاں آنے والے سیاح تعمیرِ نو سے قبل کی مسجد کی پرانی عمارت کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔