پاکستان اور ایکسپو 2020 دبئی
پاکستان پویلین کے بنیادی اہداف کیا ہیں؟
جب سے دبئی ایکسپو کا میلہ سجا ہے اور پاکستان پویلین کی دھوم چہار دانگِ عالم میں مچی ہے تب سے دوسری جنگِ عظیم بار بار یاد آ رہی ہے۔ کہتے ہیں پنجاب کے کسی گاؤں میں ایک بابا جی ہوا کرتے تھے۔ جنگ عظیم دوم شروع ہوئی تو انگریزوں نے دھڑا دھڑ برطانوی ہند کے نوجوانوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر کے محاذ پر بھیجنا شروع کر دیا۔ بابا جی کا بیٹا بھی بھرتی ہو کر چلا گیا۔ بابا جی بے انتہاء فکرمند رہنے لگے۔ گاؤں والوں نے بابا جی کو سمجھایا کہ پریشان نہ ہوں انشاء اللہ ان کا بیٹا محفوظ رہے گا۔ یہ سن کر بابا جی زور سے ہنسے اور بولے، ‘او جھلیو! میں اس لئے پریشان نہیں ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ وہ جرمنوں کا لڑکا ہٹلر بڑا لڑاکا ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ اپنا بچہ بھی بڑا گرم مزاج اور ہتھ چھٹ ہے۔ سوچتا ہوں اگر کہیں دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا تو جنگ زیادہ نہ پھیل جائے!’
خواتین و حضرات دبئی والے تو صاحبانِ تصرف ہیں ہی۔ وہ تو جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ان سے متوقع بھی تھا کیونکہ وہ ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ بہت بڑھ کر کرتے رہتے ہیں اور دنیا کو حیران کرنا اور دادِ دانائی و ترقی پانا اب ان کی عادتِ ثانیہ بن چکا ہے مگر آپ ذرا اپنے پاکستان کو دیکھیں۔۔۔۔۔ سوچتا ہوں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ دبئی والے میلہ سجاتے رہ جائیں اور پاکستان والے سب کچھ لوٹ کر لے آئیں!
یقین جانئے یہ مذاق نہیں۔ اہلِ پاکستان کی حقیقت پسندی کو دیکھ کر جی بلیوں اچھل رہا ہے اور چہلک بلیہ کھیل رہا ہے۔ آج سے پہلے بھی پاکستان عالمی نمائشوں میں شرکت کرتا رہا ہے اور آنے والوں کو اپنی اشیاء و خدمات پیش کرتا رہا ہے۔ مگر ہوتا یہ تھا کہ ہم بالعموم دنیا کے سامنے اپنی کوئی منفرد یعنی ایسی چیز پیش ہی نہیں کر پاتے تھے کہ جو ہمارے سوا کسی اور کے پاس نہ ہو۔ چنانچہ مقابلے کے محاذ پر ہم مار کھا جاتے تھے کیونکہ دیگر ممالک میں کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس کم تھی چنانچہ وہ اشیاء جو ہم بھی پیش کر رہے ہوتے تھے اور دیگر ممالک بھی، لوگ انہیں ہماری بجائے دوسروں سے خریدنے کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ وہاں سے انہیں وہ قدرے سستی مل جاتی تھیں۔
چنانچہ اس بار پاکستان ایک نہایت حقیقت پسند حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اس نے جان لیا ہے کہ اس نے کچھ منفرد بنایا نہیں اور اللہ نے اسے سب کچھ منفرد دینے سے کبھی اپنا ہاتھ کھینچا نہیں! چنانچہ اس بار دبئی ایکسپو کے پاکستان پویلین کا بھرپور فوکس اپنے قدرتی مناظر، سیاحتی پوٹینشل اور کاروباری پوٹینشل کو دنیا کے سامنے پیش کرنے پر ہے نہ کہ روایتی عمومی اور مصنوعی اشیاء پر۔ اور قرائن بتا رہے ہیں کہ کامیابی اس حکمتِ عملی کا مقدر بنے گی کیونکہ ایکسپو میں دیگر ممالک کے پویلینز عموماً روایتی اشیاء فروخت کر رہے ہیں جب کہ پاکستان سیاحت و کاروبار کے مواقع۔ یوں پاکستان پویلین خود بخود دیگر پویلینز سے ممتاز اور منفرد ہو گیا ہے۔
اُدھر حکومتِ پاکستان پچھلے تین برس سے ملک میں مہنگائی اور دیگر معاشی اعشاریوں میں اتار چڑھاؤ کے انگنت طعنے سننے کے باوجود نہایت ثابت قدمی سے سرمایہ کار دوست معاشی اصلاحات متعارف کروانے، صنعتوں کے لئے توانائی اور خام مال کی قیمتیں کم کرنے، ٹیکسیشن کے نظام کو صنعتکار اور تاجر دوست بنانے، سرمایہ کاروں کے لئے ون ونڈو آپریشنز متعارف کروانے اور بے شمار غیرمعمولی مراعات کے حامل انڈسٹریل و کمرشل زونز بنانے یعنی پاکستان میں کاسٹ آف ڈوئنگ بزنس کو کم سے کم کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے جسے نہ صرف اندرون اور بیرونِ ملک موجود تاجروں اور صنعتکاروں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے بلکہ فیصل آباد اور کراچی کے صنعتکاروں کی پیداوار، کھپت اور منافع میں اضافہ اور ٹیکسٹائیل و دیگر صنعتوں میں مزید ملازمتوں کا پیدا ہونا ان سرکاری دعوؤں کو ثابت بھی کر رہا ہے کہ اب پاکستان سرمایہ کار دوست پالیسیوں کے حوالے سے بلا شبہ دیگر ممالک کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان پویلین ایکسپو 2020 دبئی حکومتِ پاکستان کے ان سرمایہ کار دوست اقدامات کو ثمریاب کرنے کے لئے عالمِ غیب سے آنے والی تائید ہے کیونکہ یہاں دنیا بھر سے سیاح، سرمایہ کار اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بڑی تعداد میں آ رہے ہیں۔ چنانچہ پاکستان پویلین نے ان معززین کے سامنے اپنے ہر قسم کے پوٹینشل کی بھرپور نمائش کے ایک جامع پروگرام کا اعلان کر دیا ہے۔
پاکستان پویلین میں کیا کیا ہو رہا ہے؟
1۔ پاکستان پویلین کے منتظمین کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اکتوبر کا مہینہ بنیادی طور پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے نام رہے گا۔ بلوچستان خوبصورت ترین خد و خال اور عظیم الشان تاریخ و تہذیب کا وارث ہونے کے باوجود ذرائع مواصلات کی کمی اور حکام کی عدم توجہی کے سبب ہنوز بڑی حد تک دنیا بھر میں موجود سیاحت کے شوقین اور سرمایہ کاری کے خواہشمند افراد کی نظر سے پوشیدہ رہا ہے۔ چنانچہ ایکسپو 2020 میں پاکستان پویلین میں بطورِ خاص بلوچستان کے حسین، مسحورکُن اور قطعی منفرد سیاحتی مقامات سے دنیا کو متعارف کروایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں موجود گوادر پورٹ اور سی پیک میں شامل دیگر منصوبوں، کوسٹل ہائی وے، معدنیات کی تلاش کے منصوبوں اور سرمایہ کاری کے دیگر مواقع سے بھی کاروباری دنیا کے لوگوں کو متعارف کروانے کے لئے متعدد سیمینارز، ورکشاپس اور سوال و جواب کے سیشنز کا اہتمام کیا جائے گا۔
2۔ اکتوبر کے مہینے میں پاکستان پویلین ایک اور نہایت اہم کام بھی کرنے جا رہا ہے اور وہ ہے دنیا کی نظر کی عینک تبدیل کرنے کا کام۔۔۔۔۔! پاکستان پویلین اکتوبر میں دنیا بھر سے یہاں آنے والے سیاحوں، سرمایہ کاروں، پالیسی میکرز اور ایکٹوسٹس کو یہ باور کرانے پر بھی توجہ مرکوز کرے گا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک نظر سے دیکھنے کی ان کی پالیسی ان کے علم دوستی کے دعوؤں کی کمر توڑ سکتی ہے۔۔۔۔۔ اور اس مقصد کے لئے پویلین میں اکتوبر میں منعقد کئے جانے والے پروگرامز میں پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میں خواتین کے کردار کو بطور خاص اجاگر کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ پاکستان میں خواتین کو نہ صرف بھرپور آزادی اور بیشتر حقوق حاصل ہیں اور وہ ان حقوق اور آزادیوں کو استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ یہ بھی بتایا جائے گا کہ معاشرے اور ریاستی قوانین میں اس حوالے سے جہاں جہاں کجیاں موجود ہیں، وہاں وہاں انہیں دور کرنے کی بھی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔
3۔ پاکستان پویلین میں 5 اکتوبر کا دن ماحول دوستوں، ٹیکنالوجی پسندوں، ترقی پسندوں اور ویژنری افراد کے لئے خاص طور پر اہمیت کا حامل رہا کیونکہ اس روز پاکستان کے وفاقی سرمایہ کاری بورڈ نے ملک کی الیکٹرک وہیکل پالیسی پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا اور دنیا کو نہ صرف پاکستان کے جدت اور ماحول دوستی کی جانب مارچ کے متعلق بتایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ اس شعبے میں سرمایہ کری کرنے والوں کے لئے پاکستان سے بڑی، بہترین اور بھرپور پوٹینشل کی حامل منڈی شاید ہی کوئی اور ہو۔
4۔ پاکستان کے ماحول دوست اقدامات ہی کے حوالے سے 6 اکتوبر کو مشیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین کے ساتھ ایک سیشن کا اہتمام کیا گیا جس میں صاف اور سرسبز پاکستان مہم، بلین ٹری سونامی منصوبے اور پاکستان کے جنگلات سے مالا مال پہاڑوں اور وادیوں کو دنیا کے سامنے اجگر کیا گیا۔
دبئی ایکسپو میں تفریح کیلئے کیا ہے؟
اگر کم پاکستان نہیں تو کم اہل عرب بھی نہیں کیونکہ 12 اکتوبر سے شروع ہونے والے تقریبات کے ایک سلسلے میں ممتاز عرب فنکار اصیل ابو بکر، دالیا مبارک، عراقی فنکار ماجد المہندس، اصیل حمیم، مراکشی گلوکارہ اسما المنور، کویتی فنکار مطرف المطرف اور علا ہندی وغیرہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ ایکسپو میں ماہانہ کنسرٹس بھی ہوں گے اور ان تمام ثقافتی تقریبات میں 30 سے زائد فنکار اور خلیجی خطے کے نامور موسیقار شرکت کریں گے۔