عَمَان۔۔۔ مشرق وسطیٰ کا اُبھرتا ہوا شاہکار
عمان سے کیا مراد ہے؟
عہدِ قدیم میں فلسطین کے شہر رباتھ عمون میں بسنے والوں کو قومِ عمون کہا جاتا تھا۔ اس قوم کے افراد عمونی یا ایمونائٹ کہلاتے ہیں یہ لوگ سامی زبان بولا کرتے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ یا مغربی ایشیاء میں آج جتنی بھی زبانیں بولی جاتی ہیں، وہ سب علمِ لسانیات کے سامی خاندان ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس قوم کے لوگوں کا شہر کی ملکیت اور وہاں آباد کاری کے حق کے معاملے پر علاقے کے دوسرے بڑے گروہ قومِ اسرائیل سے تنازعہ چلتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کبھی اپنے آبائی شہر سے نکلنے پر مجبور ہو جاتے تو کبھی پھر کہیں اکٹھے ہو کر اسرائلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے لگتے۔ ایک طویل عرصہ بڑی حد تک خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنے کے بعد بالآخر عمونیوں نے تیرہویں صدی قبل مسیح میں دریائے اردن کے مشرقی علاقے میں اپنی سلطنت قائم کر لی اور جس علاقے کو اپنا دارالحکومت بنایا وہ عمان کہلانے لگا جو کہ آج مشرق وسطیٰ کے تیزی سے ابھرتے ہوئے عرب ملک اردن کا دارالحکومت ہے۔
عَمَان کیسا شہر ہے؟
عمان اردن کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اردن کے بادشاہ، وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سمیت وفاقی حکومت کی پوری مشینری اسی شہر سے مُلک کا نظم و نسق چلاتی ہے۔ یہ شہر اونچے نیچے عجلون پہاڑوں کے مشرقی کنارے پر ایک چھوٹی سی اور قدیم زمانے سے موجود وادیِ عمان اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یوں اگر اس شہر کو حسنِ فطرت اور جدید طرزِ تعمیر کا حسین مُرقع کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
اپنی تاریخ میں انگنت مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود عمان آج ایک جدید اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے شہر کے طور پر اپنی منفرد پہچان بنا رہا ہے۔ یہ اردن کا سب سے بڑا بین الاقوامی تجارتی مرکز ہے۔ شاہی محلات شہر کے مشرق جب کہ پارلیمان کی عمارت شہر کے مغربی حصے میں واقع ہے۔ شہر کی خاص بات یہ ہے کہ دلدادگانِ حُسنِ فطرت ہوں یا سرمایہ کار اور جدتِ زمانہ کے معترف ہوں یا تاریخِ انسانی و آثار قدیمہ کے طلبہ و ماہرین، عمان سب کے لئے یکساں دلکشی رکھتا ہے۔
آزادی کے بعد عمان کن مراحل سے گزرا؟
اُردَن کی آزادی کے بعد پورے ملک کے ساتھ ساتھ عمان بھی متعدد ہنگامہ خیز مراحل سے گزرا اور اس کی آبادی میں بہت تیز رفتاری سے اضافہ ہوا۔ بالخصوص مندرجہ ذیل واقعات نے دارالحکومت عمان کو شدید متاثر کیا اور اِسے طویل عرصہ تک مشرقِ وسطیٰ کے دیگر بڑے شہروں کی طرح ترقی کے تیز رفتار سفر پر گامزن ہونے سے روکے رکھا۔
1۔ 49-1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینی مہاجرین کا ایک بڑا ریلا عمان بھر میں پھیل گیا۔
2۔ 1967ء کی دوسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اُردَن سے دریائے اُردَن کے مغرب میں موجود سارا علاقہ چھین لیا لہٰذا مہاجرین کا ایک اور بہت بڑا ریلا مغربی کنارے اور فلسطینی علاقوں سے نکل کر اُردَن اور اُس کے دارالحکومت عمان میں آ بسا۔
3۔ اُردَن کی حکومت اور باغی فلسطینی گوریلوں کے مابین کئی سالوں سے جاری تنازعے نے 1970ء میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی اور دارالحکومت عمان کی گلیاں میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں۔ ہر چند کہ بالآخر ملک کی سرکاری افواج نے فلسطینی گوریلوں کو ہتھیار ڈالنے یا فرار ہو جانے پر مجبور کر دیا اور شہر کا امن و امان بحال کرنے میں کامیاب ہو گئیں مگر اس سارے ہنگامے کے دوران عمان کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر کی انگنت املاک تباہ ہو گئیں اور وہ کئی سال پیچھے چلا گیا۔
عمان کی معاشی صورتحال کیسی ہے؟
عمان کی معیشت کا انحصار بنیادی طور پر صنعت و تجارت پر ہے۔ شہر کی بڑی صنعتوں میں کھانے کی اشیاء بنانے کے کارخانے، تمباکو کی پراسیسنگ کے کارخانے، سیمنٹ کے پیداواری یونٹس، کپڑا اور کپڑے کی مصنوعات بنانے کے کارخانے، کاغذ، گتہ اور کاغذ کی مصنوعات بنانے کے یونٹس، پلاسٹک کی اشیاء بنانے کے کارخانے اور ایلومینیم کے برتن وغیرہ بنانے کے کارخانے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں متعدد بڑے بڑے تجارتی مراکز بھی موجود ہیں جہاں سے مقامی مصنوعات سمیت دنیا بھر کے جدید برانڈز کی اشیاء تک سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں ایک پُرامن اور جدید ملک کے طور پر اُردَن کی شہرت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے عمان خطے کا ایک بڑا صنعتی و تجارتی مرکز بنتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف مقامی سرمایہ کار یہاں اپنے کاروباروں کو وسعت دے رہے ہیں بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کی بھی عمان میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔
عمان کا نقل و حمل کا نظام کیسا ہے؟
عمان اردن کے نقل و حمل کے نظام کا مرکز ہے۔ شہر سے 2 ہائی ویز مغرب میں یروشلم کی جانب جاتی ہیں جب کہ شمال میں السلط کی جانب جانے والی سڑک شہر کی مصروف ترین گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ العقبہ کی بندرگاہ پر اپنے آخری جنوبی سٹیشن والی اُردَن کی شمال سے جنوب کی جانب جانے والی مرکزی ہائی وے بھی عمان میں سے گزرتی ہے۔ جدید اور تمام اقسام کی اعلیٰ سہولیات سے آراستہ ملکہ علیاء بین الاقوامی ایئرپورٹ حجاز ریلوے کی پرانی پٹڑیوں کے قریب شہر سے 40 کلو میٹر دور جنوب کی جانب واقع ہے۔
عَمَان میں اہلِ علم کیلئے کیا ہے؟
عمان میں عِلم، تہذیب اور ثقافت کے قدردانوں کے لئے بہت کچھ ہے۔ یہاں موجود سب سے ممتاز اور عہد ساز اعلیٰ تعلیمی ادارہ جامعہ اُردَن 1962ء میں قائم کیا گیا تھا جو کہ اب شہر میں علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے ایک بڑے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں متعدد عجائب گھر بھی موجود ہیں جو اس قدیم خطے میں وقوع پذیر ہونے والے ہزاروں سال کے ارتقائی عمل اور یہاں پنپنے والی متعدد تہذیبوں کے نقوش کے امین ہیں۔ علاوہ ازیں، عَمَان میں اہلِ علم کے ذوق کی تسکین کے لئے کئی کُتب خانے بھی موجود ہیں جن میں نیشنل لائبریری سب سے بڑا مرکزِ علم و فضل ہے۔
عَمَان میں سیاحوں کیلئے کیا ہے؟
عمان میں سیاحوں کی دلچسپی کے اہم مقامات میں سے ایک یہاں کا قدیم قلعہ ہے جس کے ساتھ ہی آثارِ قدیمہ کا گڑھ سمجھا جانے والا ایک عجائب گھر اور عمدگی سے محفوظ کیا گیا ایک رومی طرزِ تعمیر کا شاہکار وسیع، بلند اور منفرد اوپن ایئر تھیئٹر (ایمفی تھیئٹر) بھی موجود ہے جہاں زمانہ قدیم میں بھی 6 ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی۔ اس قدیم ایمفی تھیئٹر کو 2004ء میں از سر نو بحال کر دیا گیا تھا۔