قدیم ثقافتیں، جدید کامیابیاں اور افغانستان پویلین
افغانستان پویلین کی تھیم کیا ہے؟
ایکسپو 2020 دبئی کا ہر پویلین شاندار ہے اور ہر ملک پوری کوشش کر رہا ہے کہ یہ میلہ وہی لوٹے لیکن اہلِ افغانستان کی شان، کام اور نمائشیں سب ہی سب سے جُدا ہیں۔ پہلے تو انہوں نے نمائش شروع ہو جانے کے باوجود اپنے پویلین کو کسی خاطر میں نہ لا کر اور بالکل ویران چھوڑ کر سب کو پریشان کر دیا اور پھر اسے بے انتہاء سجا کر، پوری آب و تاب سے بسا کر اور اپنے خطے کی قدیم و موجودہ تہذیبوں کی کامیابیوں و تغیرات سے بھرپور تاریخ کا آئینہ بنا کر سب کو حیران بلکہ انگشت بدندان کر دیا۔ پویلین کی تھیم یا دعویٰ یہ ہے کہ افغانستان ‘قدیم ثقافتوں سے جدید کامیابیوں‘ تک کے سفر کی ایک طویل داستان سنا رہا ہے۔
افغان پویلین کیا کر رہا ہے؟
افغان پویلین ایکسپو 2020 دبئی کے اپرچونٹی ڈسٹرکٹ میں واقع ہے اور یہاں جانے والے افغانستان کے ثقافتی تنوع، مصنوعات کی نمائشوں، کھانوں، مشروبات اور سووینیئرز کا نظارہ کر سکتے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کر سکتے ہیں۔ پویلین انتظامیہ دنیا بھر سے آئے دماغوں کو یکجاء کر کے اجتماعی فکر کی روش اختیار کرنے کی دعوت دے رہی ہے تاکہ یہ فکری نشستیں افغان عوام اور دنیا بھر میں موجود سرمایہ کارں، ہنرمندوں، ماہرین، طلبہ اور سیاحوں سب کیلئے مفید ثابت ہو سکیں اور سب کو نت نئے مواقع تلاش کرنے اور افغان سرزمین میں پہلے سے موجود مگر عدم توجہی کے سبب ضائع ہوتے ہوئے مواقع سے فائدہ اٹھانے پر راغب کر سکیں۔
پویلین انتظامیہ بریفنگز، فورمز، سیمینارز، ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے آںے والوں کو بتا رہی ہے کہ افغانستان میں تیزی سے قائم ہوتی ہوئی نئی صنعتیں کس طرح افغان عوام کے معیارِ زندگی پر نہایت مثبت اثرات مرتب کر رہی ہں، انہیں روزگار فراہم کر رہی ہیں اور تعلیم و صحت جیسی ناگزیر سماجی ضروریات کے حصول کیلئے رقم خرچ کرنے کے قابل بنا رہی ہیں۔
افغانستان پویلین میں کیا ہو رہا ہے؟
پویلین میں لگائے گئے نمائشی سٹالز قدیم افغان بازاروں سے مشابہ ہیں جو مندوبین کو افغان تہذیب و ثقافت کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ یہاں آپ کو افغان سرزمین کا طرۂ امتیاز اور عالمی معیار کی حامل وہ افغان زرعی مصنوعات، خشک میوہ جات، زعفران اور قیمتی پتھر وغیرہ بھی ملیں گے جو افغانستان میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی بدامنی اور جنگوں کے سبب یا تو عالمی منڈیوں سے غائب ہو گئے تھے اور یا نہایت قلیل مقدار میں اور مہنگے داموں دستیاب تھے۔ دریں اثناء، پویلین آنے والے افغانستان کے باکمال دستکاروں اور فنکاروں کی بنائی ہوئی دستکاریوں اور نوادراتِ فن سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور ملک کے عظیم فنی و ثقافتی ورثے سے متعلق انگنت سینہ بہ سینہ سفر کرنے والی دلفریب داستانیں بھی سن سکتے ہیں۔
افغان پویلین کیسے بسا؟ یہاں کیا کیا ہے؟
افغان پویلین کی کہانی نہایت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ پویلین کے ڈائریکٹر محمد عمر رحیمی ہیں جن کا آبائی ملک تو افغانستان ہے مگر وہ ملک میں موجود طوائف الملوکی، تشدد اور خون خرابے سے دلبرداشتہ ہو کر 1978ء میں نہایت کم عمری میں ملک سے چلے گئے تھے۔ ان کے والد جنہوں نے انہیں لڑکپن میں افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، کابل میں تاریخی نوادرات کی دکان چلایا کرتے تھے۔ اب رحیمی 40 برس سے زائد عرصے سے آسٹریا میں مقیم ہیں۔ ان کی آسٹریا میں بہت بڑی دکان ہے جہاں وہ افغانستان سے درآمد شدہ دستکاریاں، زیورات اور قیمتی پتھر وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ گویا ان کا تعلق کلیتاً نجی شعبے سے ہے اور ان کا گزشتہ یا موجودہ افغان حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔
صدر اشرف غنی کے زیرِ قیادت افغانستان کی منتخب حکومت اس پویلین کی انچارج تھی مگر اگست میں ملک پر طالبان کے قبضے کے بعد پویلین کی قسمت بھی مخدوش ہو گئی اور وہ یکم اکتوبر کو ایکسپو 2020 کے آغاز کے موقع پر جوں کا توں خالی اور ویران پڑا رہا۔ ایکسپو انتظامیہ نے عمر رحیمی کے تجربے سے واقف ہونے کے سبب ستمبر کے آخر میں ان سے رابطہ کیا کیونکہ اس وقت تک افغانستان پر قابض طالبان حکومت کو یو اے ای سے لے کر اقوام متحدہ تک کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ چنانچہ رحیمی نے اس پیشکش کو فوراً قبول کر لیا اور جلد سے جلد ویانا سے دبئی پہنچنے کی تیاری شروع کر دی۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رحیمی نے کہا کہ ان کے پاس آسٹریا میں تقریباً 2600 افغان نوادرات ہیں مگر وہ ان میں سے صرف 300 اپنے ساتھ دبئی لا پائے ہیں اور وہ انہیں نمائش کے اختتام تک یہیں رکھیں گے۔ پویلین کو رحیمی نے اپنے بیٹے اور بھائی کے ساتھ مل کر دن رات ایک کر کے صرف 3 روز میں ڈیزائن کیا۔ اس وقت اس پویلین میں افغانستان سے درآمد شدہ قالین، قیمتی پتھر، زیورات، خنجر، تلواریں، روایتی ملبوسات اور پندرھویں صدی عیسوی کا ایک نادر و نایاب سونے اور چاندی سے بنا ہار آنے والوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں اور ان سے داد وصول کر رہے ہیں۔
افغانستان میں موجود سیاسی عدم استحکام کے باوجود رحیمی خوش ہیں کہ ان کا پویلین اب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کام کر رہا ہے اور دنیا بھر سے آنے والے افراد کے ذہنوں میں ان کے ملک کا امیج بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ رحیمی کہتے ہیں کہ یہاں آنے والے لوگوں میں سے زیادہ ترکے ذہنوں میں افغانستان کے متعلق نہایت منفی مواد بھرا ہوتا ہے لیکن پویلین میں داخل ہونے کے بعد اور افغان تہذٰب و ثقافت کی جھلکیاں دیکھنے کے بعد ان کی سوچ بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ملک کے حالات میں مثبت تبدیلی لانے کی اہلیت نہ رکھنے کے باوجود دنیا میں اس کا مثبت امیج بنانے کی کوشش میں کامیاب ہونے کے سبب کافی خوش ہیں۔
افغان پویلین کے کھلنے کے بعد سے لوگ جوق در جوق یہاں آ رہے ہیں۔ افغان مصنوعات خرید اور پسند کر رہے ہیں اور افغان عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے جاری سیمینارز و فورمز میں شرکت کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں طویل عرصے سے جاری عدم استحکام کے دور کے جلد از جلد اختتام کی کوئی تدبیر کر سکیں۔