کیا آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں؟
ترقی کسی کی میراث نہیں۔ جو چاہے، جتنی چاہے ترقی کر سکتا ہے۔ بس اپنی سوچ اور طرزِ عمل میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں۔ جو اقوام یا افراد جمود کا شکار رہتے ہیں اور وقت کے تقاضوں کے مطابق نئے، بہتر اور موافق فیصلے نہیں کرتے، ان کا تیز رفتار زمانے سے پیچھے رہ جانا منطقی ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ زمانہ سازی کے اس اصول پر عمل کیونکر ممکن ہے اور کیسے اپنی سوچ اور عمل کو وقت گزرنے کے بعد نہیں بلکہ عین وقت پر ضرورت کے مطابق ڈھال کر آگے بڑھا جا سکتا ہے تو پھر آپ کے لئے دنیا بھر میں متحدہ عرب امارات سے بہتر شاید ہی کوئی مثال یا قابلِ تقلید نمونہ ہو۔
اماراتی حکومت اس راز کو بہت پہلے سے جان چکی ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے اور معاشرہ خود کو تنہا کرنے کا نہیں وسیع کرنے کا نام ہے۔ اہلِ امارات اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اکیلا پن ویرانیاں لاتا ہے اور ملاپ جنگل میں منگل کر دیتا ہے۔ چنانچہ جس طرح اپنی آزادی سے لے کر آج تک گزشتہ 50 برس میں انہوں نے دنیا بھر سے فنی ماہرین، سرمایہ کاروں اور مزدوروں سمیت انگنت اہل دانش و اہل ہمت کے لئے اپنی سرحدیں اور دل وا کئے ہیں اور خلاؤں تک میں اپنے جھنڈے گاڑنا ممکن بنایا ہے اور خود کو خطے کی بڑی معاشی، تجارتی و تذویراتی قوت بنایا ہے بعینہٖ اب انہوں نے کورونا وباء کے نتیجے میں قومی معیشت کی شرح نمو میں آنے والی سُستی کو دور کرنے کے لئے بھی اسی آزمودہ اور تیر بہ ہدف نسخے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اماراتی حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ قومی معیشت کی استعداد اور حجم کو بڑھانے کے لئے عنقریب 50 نئے معاشی منصوبوں کا اعلان کرنے جا رہی ہے تاکہ آئندہ 9 برس کے اندر اندر ملک میں 550 بلین درہم یعنی 150 بلین ڈالر کی براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جا سکے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اماراتی حکام نے ان 50 زیرِ غور منصوبوں میں سے چند کا اعلان بھی کر دیا ہے کہ جن کے مطابق، مُلک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی جائے گی اور نئے ویزوں کا اجراء کیا جائے گا تاکہ دنیا بھر میں موجود اُن افراد کو متوجہ کیا جا سکے جو متحدہ عرب امارات میں سکونت اختیار کرنے یا یہاں اپنی فنی مہارتوں کا مظاہرہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
چنانچہ جس طرح یو اے ای نے مزید ترقی کرنے کے لئے غیرملکی ہنرمندوں و سرمایہ کاروں کیلئے اپنے دل مزید بڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے بالکل اسی طرح آپ بھی اپنے اپنے دل بڑے کر کے یعنی اپنے اپنے ممالک کی سرحدیں عبور کر کے اور وہاں سے یو اے ای ہجرت کر کے بلاشبہ اپنی ترقی کی رفتار کو مزید تیز اور اپنے طرزِ زنددگی کو مزید پرسکون، مزید محفوظ اور مزید شاہانہ بنا سکتے ہیں۔ بس ہمت کے آگے فتح ہے!
کون کون یو اے ای آ سکتا ہے؟
اماراتی حکام کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں آگاہ کیا گیا ہے کہ حکومت نے 2 نئی ویزہ کیٹیگریز بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک فری لانسرز کے لئے ہو گی جب کہ دوسری اپنا کاروبار کرنے کے خواہشمندوں اور ہنرمند کارکنان کے لئے ہو گی۔ ان نئی ویزہ کیٹیگریز کی تشکیل کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ ان غیرملکی فنی ماہرین کے لئے متحدہ عرب امارات کو زیادہ موزوں اور زیادہ دلکش ملک بنایا جا سکے جو پہلے سے یہاں موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں مگر بہتر ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے یا دیگر وجوہات سے پریشان ہو کر جلد یا بہ دیر اپنے ممالک واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جب کہ ان نئی ویزہ کیٹیگریز کو تشکیل دیئے جانے کا دوسرا مقصد ان غیرملکی ماہرین یا ہنرمند کارکنان کیلئے یو اے ای کو زیادہ موافق ملک بنانا اور یہاں آنے پر راغب کرنا ہے جو دنیا کے دیگر ممالک میں رہ اور کام کر رہے ہیں مگر ان کے فن یا مہارت کی متحدہ عرب امارات میں نہایت ضرورت ہے۔
گرین ویزہ کیا اور کیسا ہو گا؟
اماراتی حکام کے مطابق، فنی ماہرین کی کیٹیگری کے تحت عنقریب جاری کئے جانے والے ویزے ”گرین ویزے” کہلائیں گے جن کی شرائط و ضوابط بھی ماضی میں جاری کئے جانے والے اماراتی ویزوں کی نسبت زیادہ آسان اور زیادہ موزوں یعنی کارکن دوست ہوں گی۔ اب تک بالعموم متحدہ عرب امارات آنے والے غیرملکیوں کو صرف ایسے قابل تجدید یا رینیو ایبل ویزے جاری کئے جاتے تھے کہ جو صرف چند سالوں کی معیاد کے حامل ہوتے تھے اور یہ معیاد بھی غیرملکی کارکنان کی ملازمتوں سے مشروط ہوتی تھی۔ تاہم، مستقبل قریب میں فنی ماہرین کے لئے متعارف کروایا جانے والا گرین ویزہ کارکنان کو ایک ملازمت ختم ہو جانے کے باوجود متحدہ عرب امارات میں مقیم رہنے اور نئی ملازمت تلاش کرنے کے لئے زیادہ وقت دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ویزہ کی ایک اور خاص بات یہ ہو گی کہ یہ دیگر ممالک سے متحدہ عرب امارات آنے والے اُن ہُنرمند کارکنان کے لئے زیادہ لچک دار ہو گا کہ جو اپنے اہل خانہ کے ویزوں کو سپانسر کرنا چاہیں گے۔
ان 2 معاملات میں نرمی سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یو اے ای کی گرین ویزہ کیٹیگری کو اماراتی حکام کی جانب سے باقاعدہ تحقیق کرنے کے بعد لانچ کیا جا رہا ہے کیونکہ یہاں آنے والے غیرملکی کارکنان کو بالعموم انہیں دو مسائل سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا جن کا سدِباب کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہیں اور کسی نہ کسی شعبے میں فنی مہارت رکھتے ہیں اور ترقی بھی کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کے لئے زیادہ دیر تک اپنے پیاروں سے دور رہنا بھی مشکل تو آپ کو پریشان ہونے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔ بس یو اے ای کا گرین ویزہ حاصل کریں اور رختِ سفر باندھ لیں۔