والدین و طلباء کے اہلخانہ کو سپانسر کرنا اور خاتون سپانسر
کیا والدین کا رہائشی ویزہ سپانسر کیا جا سکتا ہے؟
متحدہ عرب امارات میں مقیم غیرملکی ملازم 1 سال کے قیام کیلئے اپنے والدین کے رہائشی ویزوں کو سپانسر کر سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے لئے انہیں متعلقہ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مختص کردہ بینک ڈیپازِٹ والدین میں سے ہر ایک کیلئے علیحدہ علیحدہ بطور ضمانت رکھوانا ہو گا۔
یو اے ای میں مقیم کوئی غیرملکی ملازم اپنے والدین میں سے کسی ایک کو سپانسر نہیں کر سکتا۔ اس کیلئے والدین میں سے دونوں کو اکٹھے سپانسر کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کو یہ ثبوت بھی دینا ہوتا ہے کہ وہ ان کا اکلوتا سہارا ہے اور اس کے آبائی ملک میں ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔
اگر والدین میں سے کسی ایک کا انتقال ہو چکا ہو یا اُن میں طلاق ہو چکی ہو اور اس کا دستاویزی ثبوت موجود ہو تو ایسی صورت میں ان کا امارات میں مقیم غیرملکی ملازم بیٹا ان میں سے کسی ایک کا رہائشی ویزہ سپانسر کر سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم غیرملکی ملازم کیلئے ضروری ہے کہ وہ والدین کو سپانسر کرنے کیلئے درکار کم از کم تنخواہ لازماً کماتا ہو اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے کم از کم مختص کردہ کوریج والی طبی انشورنس پالیسی لازماً لے لے جو کہ ہر سال رینیو کروائی جاتی رہے۔
دبئی حکومت کی ویب سائٹ ڈی این آر ڈی کے مطابق، والدین کا ویزہ سپانسر کرنے کیلئے دبئی میں مختص کردہ کم از کم ماہوار تنخواہ 20000 اماراتی درہم یا 19000 اماراتی درہم مع 2 بیڈرومز والا گھر ہے۔ واضح رہے کہ دیگر 6 امارات میں مقامی حکومتوں کی جانب سے عائد کردہ شرائط و ضوابط مختلف ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ہر امارت میں ہر مقیم غیرملکی شہری کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کا رہائشی ویزہ اپلائی کرنے سے قبل متعلقہ امارت کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ریذیڈینسی اینڈ فارنرز افیئرز سے رابطہ کرکے سپانسرشپ کی شرائط معلوم کر لے تاکہ اُسے بعد میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کیا طلباء کے اہلخانہ کو رہائشی ویزہ مل سکتا ہے؟
جنوری 2021ء میں متحدہ عرب امارات کی کابینہ نے ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت یہاں کی جامعات میں زیرتعلیم غیرملکی طلباء کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنے اپنے خاندانوں کے ارکان کو یو اے ای مدعو کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ ان کی رہائش کیلئے موزوں گھر کا انتظام کر سکتے ہوں۔ قرارداد کا مقصد بچوں کی اخلاقی و جذباتی زندگیوں میں استحکام لانا ہے تاکہ وہ اپنی تمام تر توجہ پڑھائی کا جانب مرکوز کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ ملک کا شعبۂ تعلیم بھی ترقی کر سکے اور متحدہ عرب امارات کام اور تعلیم دونوں شعبوں میں دنیا کے ممتاز ترین مقامات میں شامل ہو سکے۔
کوئی خاتون اہلخانہ کا رہائشی ویزہ سپانسر کر سکتی ہے؟
ابوظہبی میں مقیم ہر وہ غیرملکی خاتون اپنے شوہر اور بچوں کا رہائشی ویزہ سپانسر کر سکتی ہے جس کے پاس موجود رہائشی اجازت نامہ یہ بتاتا ہو کہ وہ انجینئر، استاد، ڈاکٹر، نرس یا شعبۂ طب سے متعلق ہی کوئی اور کام کرتی ہے اور اس کی ماہوار تنخواہ 10000 اماراتی درہم یا 8000 اماراتی درہم مع رہائش ہے۔ دریں اثناء، اس کو وفاقی اتھارٹی برائے شناخت و شہریت یا متعلقہ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ریذیڈینسی اینڈ فارنرز افیئرز کی مختص کردہ اضافی دستاویزات بھی فراہم کرنا ہوں گی۔
دبئی میں مقیم کوئی غیرملکی خاتون اگر انجینئر، استاد، ڈاکٹر یا نرس نہ ہو اور شعبۂ طب سے متعلق کوئی اور کام بھی نہ کرتی ہو بلکہ کسی اور شعبے میں ملازمت کرتی ہو تو بھی اسے اپنے خاندان کے افراد کو سپانسر کرنے کی اجازت مل سکتی ہے بشرطیکہ اس کی ماہوار تنخواہ 10000 اماراتی درہم سے زیادہ ہو اور اس کو ڈی این آر ڈی کی جانب سے خصوصی اجازت دی گئی ہو۔
اگر کسی خاتون کا شوہر انتقال کر چکا ہو یا وہ اسے طلاق دے چکا ہو تو بھی وہ اپنے بچوں کو سپانسر کر سکتی ہے تاہم ایسی صورت میں حکام اس سے مندرجہ ذیل دستاویزات طلب کر سکتے ہیں۔
1۔ ہر بچے کیلئے علیحدہ علیحدہ بینک ڈیپازٹ رکھوانا
2۔ اگر اُن کا والد حیات ہو مگر اُن کی والدہ کو طلاق دے چکا ہو تواُس کا تحریری اجازت نامہ جس میں اُس نے اِقرار کیا ہو کہ اُسے بچوں کے والدہ کے ساتھ رہنے اور والدہ کے اُن کو اُن کے آبائی ملک سے اپنے ساتھ متحدہ عرب امارات لے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایسے بچوں کے رہائشی ویزے 1 سال کیلئے جاری کئے جاتے ہیں جس کے بعد انہیں ہر سال رینیو کروانا پڑتا ہے۔
رہائشی ویزوں کی معیاد کتنی ہوتی ہے اور رینیو کیسے ہوتے ہیں؟
رہائشی ویزہ کا دورانیہ سپانسرشپ کی قسم اور سپانسر کرنے والے پر منحصر ہے۔ یہ ایک، دو یا تین سال کیلئے جاری کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ رہائشی ویزہ کو رینیو کروانے کیلئے بھی انہیں شرائط کو پورا کرنا پڑتا ہے جو کہ نیا ویزہ حاصل کرتے وقت عائد کی جاتی ہیں۔
خاندان کے افراد کے رہائشی پرمٹس ان کو سپانسر کرنے والے غیرملکی مکین ملازم رشتہ دار کے رہائشی اجازت نامے سے منسلک ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر کبھی کسی بھی وجہ سے انہیں سپانسر کرنے والے خاندان کے فرد کا ویزہ منسوخ ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کے زیرکفالت اہلخانہ کے ویزے بھی منسوخ ہو جائیں گے۔
تاہم، ایسے شخص کے اہلخانہ کو ان کے ویزوں کی معیاد ختم ہو جانے یا ویزے منسوخ ہو جانے کے بعد 30 دن تک متحدہ عرب امارات ہی میں ٹھہرے رہنے کی اجازت یا رعایتی مدت دی جاتی ہے جس کے دوران وہ اپنے لئے نئے رہائشی اجازت نامے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس رعایتی مدت کا آغاز ان کے ویزے منسوخ یا زائد المعیاد ہونے کے دن سے ہوتا ہے۔ اس دوران بھی اگر ایسے افراد کو سپانسر کرنے والا ان کا امارات میں مقیم ملازم رشتہ دار ان کے ویزے رینیو کروانے میں ناکام ہو جاتا ہے تو انہیں یو اے ای میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد سمجھا جائے گا اور ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔