قطر کی تاریخ اور آزادی

2,332

قطر کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟

جہاں آج قطر موجود ہے وہاں انسانی آبادی کے قدیم ترین آثار 6 ہزار قبل مسیح کے زمانے کے ہیں جب اس خطے میں میسوپوٹیمیا کی سلطنت قائم تھی۔ یہ آبادی عہدِ عبید سے تعلق رکھتی ہے۔ اس عہد کو یہ نام جنوبی میسوپوٹیمیا کے علاقے سے دریافت ہونے والے آثارِ قدیمہ کی ایک سائٹ کے نام پر دیا گیا ہے۔ یہاں سے اس دور کے پتھر کے آلات، کھیتوں میں بنی تنہاء اور چھوٹی چھوٹی تعمیرات اور مٹی کے خوبصورت اور رنگین برتن دریافت ہوئے ہیں۔ اس دور کا عرب آج کی طرح سرزمینِ بے آب نہیں تھا اور اس کا ثبوت وہاں سے ملنے والے کنوؤں اور کاشتکاری کے قدیم آثار ہیں۔ تب سے اب تک اس خطے میں انسانی آبادی مستقل مگر خال خال ہی موجود رہی ہے۔

قطر کے مغربی ساحل پر واقع الخور کے علاقے اور جزیرہ نما راس ابروق سے دھات کے زمانے کے آثارِ قدیمہ بھی دریافت ہوئے ہیں جو کہ تقریباً 1200 قبل مسیح سے 3000 قبل مسیح کے درمیان کا دور تھا۔

Source:https://www.visitqatar.qa/en/about-qatar/history-of-qatar

قطر میں عہدِ اسلام کا آغاز کب ہوا؟

628ء میں الحساء کے علاقے کہ جس میں آج کا جزیرہ نما قطر بھی شامل تھا، کے عیسائی حکمران منذر بِن ساویٰ التمیمی نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم، آج اس ابتدائی اسلامی دور کے کہیں کہیں محض چند آثار نظر آتے ہیں۔ صحرائے عرب پر بنو امیہ کی حکومت کے زمانے میں یعنی ساتویں آٹھویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ اونٹوں اور گھوڑوں کی افزائش اور تجارت کا مرکز رہا۔ آٹھویں صدی عیسوی سے تیرھویں صدی عیسوی کے دوران عباسی دورِ حکومت میں قطر کے موتیوں کے ذخائر سے مالا مال سمندروں کے سبب اس علاقے میں موتیوں کی صنعت خوب پھلی پھولی۔

سولہویں اور سترہویں صدیوں کے دوران آج قطر کے طور پر معروف علاقے اور اس کے قرب و جوار پر قبضے کے لئے عثمانی، پُرتگالی اور صفوی باہم برسرِ پیکار رہے۔ 1602ء میں صفویوں کے ہاتھوں بحرین میں شکست کے بعد پرتگالیوں نے قطر کو بحرین پر بار بار حملے کرنے کے لئے اپنے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دریں اثناء، وہ اس علاقے پر اپنے تسلط کے سبب خلیجی علاقوں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں سے ٹیکس یا بھتہ بھی وصول کرتے رہے۔ اس سے قبل تقریباً 1555ء میں عثمانی بھی قطر پر قابض رہے تھے اور یہ علاقہ ترکی کے صوبے الحساء کا حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سولہویں اور سترھویں صدیوں میں اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے عثمانی بھی پرتگالیوں سے برسرِ پیکار رہے۔

مقامی قبائل آج کے قطر پر کب قابض ہوئے؟

1670ء سے شروع ہونے والی دہائی کے دوران بنو خالد قبیلے کے شیخ نے اس علاقے سے کہ جہاں آج قطر واقع ہے، تمام عثمانیوں کو باہر نکال دیا۔ صرف بنو خالد ہی نہیں، سترھویں اور اٹھارہویں صدیوں کے دوران متعدد عرب قبائل جیسے کہ المسلم، النعیم اور الحولہ، وغیرہ وقتاً فوقتاً کبھی تنہاء تنہاء تو کبھی مل کر مختلف علاقوں پر قابض ہوتے رہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں آج کویت، قطر اور بحرین کہلانے والے ممالک پر مشتمل علاقے پر چند عرب قبائل کے اتحاد عتوب کے ارکان نے قبضہ کر لیا۔

آج کے قطری علاقوں میں انگریز کب آئے؟

اٹھارہویں صدی میں پُرتگالی قطر اور اس کے اڑوس پڑوس کے علاقوں سے بتدریج رُخصت ہوتے گئے اور ولندیزی، فرانسیسی اور انگریز تاجر ادھر کا رخ کرنے لگے۔ دیگر خلیجی علاقوں میں تو یہ اقوام سترہویں صدی ہی سے موجود تھیں اور چونکہ خلیجی ممالک مشرق اور مغرب کے مابین ہونے والی بحری تجارت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرانتظام ہندوستان اور یورپ کے مابین بحری تجارت کے راستے میں واقع تھے، چناں چہ برطانیہ بالخصوص اور دیگر مغربی اقوام بالعموم ان ممالک پر قبضہ کر کے اپنی تجارت کو محفوظ اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتی تھیں۔ لہٰذا یہاں موجود یورپی اقوام کے باہمی تصادم اور دشمنی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ نے عملاً یہاں قبضہ کر لیا۔

ثانی خاندان کا عروج کب شروع ہوا؟

1776ء میں غیرملکی حملہ آوروں اور مفاد پرست قوتوں سے تنگ آ کر تقریباً تمام مقامی قبائل نے الثانی خاندان کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع کر دیا تاکہ سب ملک کر اپنے علاقے کا دفاع کر سکیں، یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں استحکام لا سکیں اور ہمسایہ ممالک و دیگر اقوام کے تسلط سے آزادی حاصل کر سکیں۔ چناں چہ طویل جد و جہد کے بعد جب ان قبائل کے اتحاد نے بیشتر بیرونی قوتوں کو اپنے علاقے سے باہر دھکیل دیا تو شیخ محمد بن ثانی نے خلیجِ عرب میں موجود برطانوی حکام کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے جس میں برطانیہ نے قطر کو دیگر خلیجی علاقوں سے الگ ایک آزاد سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کر لیا۔ انیسویں صدی کے آخری عشروں میں ترکی نے پھر قطر پر قبضہ کر لیا۔ تاہم، قطر برطانیہ کے ساتھ مل کر اس کے خلاف مزاحمت کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ شیخ جاسم بن محمد الثانی عثمانی ترکوں سے مذاکرات بھی کرتے رہے۔

Source:https://www.visitqatar.qa/en/about-qatar/history-of-qatar

اینگلو قطری معاہدہ کب ہوا؟

جنگِ عظیم اول شروع ہو جانے اور شیخ جاسم کی وفات کے بعد 1916ء میں قطر کو بیرونی قوتوں سے آزاد کروانے کی خاطر شیخ عبد اللہ بن جاسم الثانی نے ملک کی خود مختاری کے حوالے سے اپنے تحفظات کے باوجود مجبوراً قوم کے وسیع تر مفاد میں برطانیہ کے ساتھ اینگلو قطری معاہدے پر دستخط کئے۔ 1935ء میں شیخ عبد اللہ نے اینگلو پرشیئن آئل کمپنی کے ساتھ قطر میں تیل کی تلاش کے معاہدے پر دستخط کئے اور برطانیہ کو قطر میں برطانوی سیاسی ریذیڈنٹ کے تقرر کی اجازت دے دی۔

قطر کب اور کیسے آزاد ہوا؟

1960ء کی دہائی میں قطر نے اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں کے اجلاسوں اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی۔ 1968ء میں برطانوی حکومت نے نہر سویز کے مشرق سے اپنی افواج کو واپس بلا لیا اور خلیجِ عرب کے ممالک میں ‘برطانوی تحفظ’ کا زمانہ ختم ہو گیا، یعنی وہ دفاعی طور پر بھی خود مختار ہو گئے۔ اپریل 1970ء میں ملک میں نافذ عبوری برطانوی آئین نے پہلے قطری آئین کو تسلیم کر لیا اور قطر کو اپنی وفاقی کابینہ تشکیل دینے کا اختیار مل گیا۔ 3 ستمبر 1971ء کو ثانی خاندان کے وارث اور اس وقت کے وزیر اعظم شیخ خلیفہ بن حمد الثانی نے 1916ء کے اینگلو قطری معاہدے کو ختم کر دیا، حکومت خود سنبھال لی اور ملک کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More