گرین ویزہ کیٹیگری کیوں بنائی گئی؟
متحدہ عرب امارات تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور ملک کی اس بے نظیر کامیابی میں اس کے پالیسیز میں تسلسل یا یوں کہیں کہ تجربے سے درست ثابت ہونے والی پالیسیز کو برقرار رکھنے کے اصول نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اماراتی حکومت اپنے قیام کے وقت ہی سے اس حقیقت کو بھانپ گئی تھی کہ دنیا میں کوئی بھی ملک یا قوم تنہا ترقی نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف ہمیشہ ساری دنیا سے اپنے دوستانہ و تجارتی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششیں جاری رکھیں بلکہ دیگر ممالک کے تمام شہریوں کے لئے بالعموم اور فنی و تکنیکی ماہرین، ہنرمندوں اور سرمایہ کاروں کے لئے بالخصوص اپنے دروازے کھلے رکھے۔ اماراتی حکومت ہمیشہ سے ان ہنرمند، باصلاحیت، ذہین اور محنتی خواتین و حضرات کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات اور آسانیاں پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہی ہے جو اپنے آبائی اوطان اور پیاروں کو چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے کے لئے، اپنے اہل خانہ کے لئے رزق کمانے کے لئے اور یو اے ای کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ملانے کے لئے یہاں آتے ہیں۔
اب متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی گرین ویزہ کیٹیگری بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اماراتی حکام کا یہ زبردست اقدام یقیناً دنیا بھر میں موجود ان ہزاروں ہنرمند افراد کے لئے بے حد سود مند ثابت ہو گا جو باصلاحیت ہیں مگر اپنے ممالک میں مواقع کی کمی کی وجہ سے بیروزگار ہیں یا وسائل کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں یا امارات سے قلبی لگاؤ کی وجہ سے یہاں آنا چاہتے ہیں مگر موزوں ویزہ کے حصول میں دشواریوں کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہے۔ اس کے علاوہ یہ ویزہ کیٹیگری ان ہنرمند کارکنان کے لئے بھی بے حد مفید ثابت ہو گی جو پہلے ہی سے یو اے ای میں موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں مگر موزوں ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
گرین ویزہ کیا ہے؟
متحدہ عرب امارات کے وزیرِ مملکت برائے بیرونی تجارت ڈاکٹر ثانی بن احمد الزیودی نے ابوظہبی میں گرین ویزہ کیٹیگری سے متعلق ایک تعارفی تقریب کے دوران صحافیوں اور دیگر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے گرین ویزہ سے متعلق چند بنیادی حقائق بیان کئے اور اس ویزہ کیٹیگری کے آغاز کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ:
1۔ یہ ایک نئی قسم کا رہائشی یا اقامتی ویزہ ہے جو کام کرنے کے اجازت نامے کو رہائشی اجازت نامے سے علیحدہ کرتا ہے۔
2۔ امارات میں مقیم اس ویزہ کے حامل غیرملکی کارکنان کے پاس اپنے ذاتی رہائشی اجازت نامے ہوں گی۔
3۔ گرین ویزہ رکھنے والے غیرملکی کارکنان کو اپنے رہائشی اجازت ناموں کو کسی کمپنی سے سپانسر کروانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
4۔ گرین ویزہ کیٹیگری کے تحت یہ رہائشی اجازت نامے باصلاحیت غیرملکی افراد، سرمایہ کاروں، کاروباری شخصیات، غیرمعمولی طلبہ اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کو دیئے جائیں گے۔
گرین ویزہ کے کیا فائدے ہیں؟
متحدہ عرب امارات کے وزیرِ مملکت برائے بیرونی تجارت ڈاکٹر ثانی بن احمد الزیودی کے مطابق گرین ویزہ معمول کے اقامتی ویزہ سے یکسر مختلف ہو گا اور یہ یو اے ای آنے والے ہنرمند اور باصلاحیت غیرملکی کارکنان کے حقوق اور مفادات کا زیادہ بہتر اور مؤثر تحفظ کر سکے گا۔ ڈاکٹر ثانی بن احمد کے مطابق اس ویزہ کو حاصل کرنے والے غیرملکی کارکنان کو مندرجہ ذیل فوائد ملیں گے۔
1۔ یہ ویزہ رکھنے والے متحدہ عرب امارات میں مقیم غیرملکی ہُنر مند کارکنان اس قابل ہوں گے کہ وہ اپنے والدین کے رہائشی ویزوں کو سپانسر کر سکیں۔
2۔ یہ ویزہ متحدہ عرب امارات میں مقیم غیرملکی ہنر مند کارکنان کو اپنے 25 سال تک کی عمر کے بچوں کو سپانسر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
3۔ رہائشی اجازت نامے کی معیاد ختم ہو جانے کے باوجود یو اے ای میں مقیم گرین ویزہ کے حامل غیرملکی کارکنان کو اجازت ہو گی کہ وہ مزید 90 سے 180 روز تک یہاں رہ سکیں اور اس دوران اطمینان سے اپنے ویزہ کی تجدیدِ نو کروا لیں۔ واضح رہے کہ یو اے ای میں مقیم دیگر ورک پرمٹس یا اقامتی ویزوں کے حامل غیرملکی کارکنان کو ان کے ویزوں کی معیاد ختم ہونے کے بعد انہیں رینیو کروانے کے لئے بالعموم 30 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔
گرین ویزہ سے کیا توقعات وابستہ ہیں؟
اپنے اپنے ممالک سے بوجوہ ہجرت کرنے والے دنیا بھر میں موجود ہُنرمند افراد، سرمایہ کاروں اور خداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ اور ماہرین کی اکثریت کو ہم دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک قسم کے سرمایہ کاروں اور ماہرین کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب وہ کسی بھی وجہ سے اپنے آبائی ممالک سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کی اولین ترجیح امریکہ اور یورپ کی صنعتی و تجارتی منڈیاں ہوتی ہیں اور ثانوی ترجیح یو اے ای یا دیگر تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی حامل خلیجی یا مشرقی ایشیائی ریاستیں۔ جب کہ دوسری قسم کے سرمایہ کاروں اور ہنرمندوں کا یہ اصول رہا ہے کہ اگر وہ اپنے شعبے میں انتہائی مہارت حاصل کر چکے ہوں تو وہ یورپ یا امریکہ کا رُخ کرتے ہیں لیکن اگر قدرے کم مہارت رکھتے ہوں تو ایشیاء کی بڑی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں۔
عین ممکن ہے کر گرین ویزہ ان رجحانات کو بدل دے اور متحدہ عرب امارات کو دیگر ممالک سے نقل مکانی کرنے والے باکمال افراد اور سرمایہ کاروں کی اولین ترجیح بنا دے۔ یہ ویزہ کارکنان کو احساسِ تحفظ دے گا اور وہ یو اے ای کو محض ورک پلیس نہیں بلکہ اپنا مستقل ٹھکانہ سمجھ سکیں گے کیونکہ وہ کسی سپانسر یا کفیل کمپنی یا فرد کے محتاج نہیں رہیں گے۔ جب انہیں یہ ڈر نہیں ہو گا کہ کوئی بیک جنبش زبان انہیں یو اے ای سے نکال دے گا تو وہ زیادہ اطمینان کے ساتھ اپنے کام پر توجہ مرکوز کر سکیں گے اور اپنی اور یو اے ای کی ترقی میں بہتر کردار ادا کر سکیں گے۔