نیوم کی سیر۔۔۔ مگر کیوں؟
یوں لگتا ہے کہ اہلِ عرب کو عجائبات بنانے اور اہلِ عالم کو انگشت بدنداں دیکھنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عرب والے واقعی کام بہت بڑے اور بہت اچھوتے کر رہے ہیں کہ شور زیادہ مچا ہوا ہے؟ سچ جاننا ہے تو کھوج تو لگانا پڑے گا۔۔۔۔۔ تو آئیے! سعودی عرب کے زیرِ تعمیر شہرِ بے نظیر نیوم کی سیر کو چلتے ہیں اور یہاں تکمیل کے مختلف مراحل میں موجود چند منفرد منصوبوں کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر خود فیصلہ کرتے ہیں کہ اس شہر کا حُسن، رعنائی اور زیبائش واقعی لاثانی ہونے کو ہے یا نہیں۔
1۔ جیورجیئس جی شِپ ریک
انگلینڈ میں 1949ء میں بنایا گیا بحری جہاز جیورجیئس جی ایک سامان بردار جہاز تھا۔ 1978ء میں یہ بحری جہاز خلیجِ عقبہ میں سعودی ساحل کے قریب ایک چٹان میں گِھر گیا۔ جہاز کے عملے کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے لئے یہ جہاز اس قدر مہلک ثابت ہو گا۔ تکنیکی امور سے نابلد عملہ بار بار جہاز کے انجن کو عُجلت میں سٹارٹ کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔ اس جگہ پر فضا میں اناج کے تیزی سے آگ پکڑنے والے ذرات بکثرت موجود تھے۔ نتیجتاً سامان سے مکمل طور پر لدا ہوا بحری جہاز بہت بڑی اور قابو سے باہر آگ میں کئی روز تک گھرا رہا۔
اب اس سامان بردار بحری جہاز جیورجیئس جی کا بچ جانے والا دھاتی چوکھٹا نیوم کے بحری تحفظ کے شعبے کا ایک اہم جزو بن چکا ہے اور اسے آبی حیات جیسے کہ مرجان، سپنج، مچھلیوں اور کچھوؤں کیلئے ایک دلکش، شاندار اور اچھوتے نخلستان میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
2۔ جبل اللوز
سطح سمندر سے 2549 میٹر بلند جبل اللوز ایک پُرشکوہ پہاڑ ہے جو کہ شمالی نیوم میں موجود اردگرد کے پہاڑی سلسلوں پر حکومت کرتا ہے۔ عربوں میں بادامی پہاڑ کے طور پر معروف جبل اللوز اور اس کے اردگرد کا علاقہ تہذیبی ورثے، فطری حُسن اور انعاماتِ قدرت سے مالا مال ہے۔ اس پہاڑ پر چڑھتے ہوئے آپ جا بجا چٹانی نقش و نگار، کُندہ تحریریں اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔ جبل اللوز کی بلندی کو سر کرتے ہوئے شاندار مناظر ہر موڑ پر آپ کا استقبال کرتے ہیں۔
نیوم کا بلند ترین پہاڑ ہونے اور قلیل مدت کیلئے ہی صحیح، قریبی خلیجِ عقبہ کے پانیوں کے سبب سرد موسم کا حامل ہونے کے سبب جبل اللوز ہر موسمِ سرما میں برفباری کے مزے بھی اٹھاتا ہے جو کہ یہاں کی کُھردری مگر پُرشکوہ سطح زمین کو ایک شاندار سرمائی سرزمینِ عجائبات میں تبدیل کر دیتی ہے۔
3۔ وادیِ طیب اِسم
یہ وادی نیوم کے علاقے میں مستقل بہتے پانی کے حامل خال خال مقامات میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں پائے جانے والے جانوروں اور پودوں کا ایک محفوظ مسکن بھی ہے۔ چنانچہ یہاں آنے والوں کی سانپوں، پرندوں، مچھلیوں، مگرمچھوں اور عرب خطے میں پائے جانے والے مخصوص مینڈکوں وغیرہ سے ملاقات کے غالب امکانات ہیں۔
وادی میں پائے جانے والے جانوروں اور پودوں کی انگنت اقسام کی بقاء کو یقینی بنانے کے لئے وادیِ طیب اِسم میں ذرائع نقل و حمل کا داخلہ ممنوع ہے۔ مزید برآں، موسمِ سرما کی بارشوں کے فوراً بعد وادی میں آنے والوں کو تمام تر احتیاطی تدابیر لازماً اختیار کر لینی چاہیں کیونکہ اس موسم میں وادی میں بہنے والے پانی کی مقدار میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر آپ یہاں تیراکی کرنے کا پروگرام بناتے ہیں تو پھر آپ کو اور بھی محتاط ہونا پڑے گا کیونکہ یہاں لائف گارڈز یا محافظوں کے دستے گشت نہیں کر رہے ہوتے اور لہریں اپنی پوری قوت سے وادی میں داخل ہوتی ہیں۔
4۔ مقابرِ مدین
فی زمانہ وادیِ طیب اسم البدع شہر میں گھری ہوئی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مدین کی قدیم سرزمین کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ مدین کی تہذیب بارھویں صدی قبل مسیح کے عہد میں اپنے عروج پر تھی۔ تورات اور قرآنِ مجید دونوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔
مدین وہی سرزمین ہے کہ جہاں پیغمبرِ خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکلنے کے بعد واپسی اور فرعون رمسیس دوم سے اپنی قوم کو آزاد کروانے سے قبل عالمِ جلا وطنی میں 10 برس گزارے۔ یہاں سے ملنے والے سِکے ثابت کرتے ہیں کہ یہ شہر ہیلینستی عہد یعنی یونانی تہذیب کے آخری زمانے سے لے کر عہدِ انباط یعنی دریائے فرات کے کنارے آباد تہذٰب کے زمانے اور رومی تہذیب کے زمانے تک ہی نہیں بلکہ اسلامی تہذیب کے زمانے میں بھی سرگرم اور زندگی سے بھرپور رہا ہے۔ انباط کہلانے والے شمالی عرب کے قدیم لوگوں نے البدع شہر کو گھیرنے والے پہاڑوں پر اور چٹانوں کو کھود کر نیوم کے آثارِ قدیمہ کے مقامات میں سے سب سے اہم مقام مقابرِ مدین تخلیق کئے تھے جنھیں عرب دنیا میں مغائرِ شعیب بھی کہا جاتا ہے۔ اس جگہ کو یہ نام زیارت کے لیے یہاں آنے والوں کی جانب سے بصد احترام دیا گیا ہے کیونکہ اللہ کے پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام یہاں رہتے تھے۔ اگر آپ یہاں آنا اور مغائرِ شعیب کو دیکھنا چاہتے ہیں تو مت بھولئے گا کہ اتوار تا جمعرات صبح 10 بجے سے لے کر شام 6 بجے تک جب کہ بروز جمعہ اور ہفتہ شام 4 بجے سے 6 بجے تک یہاں آیا جا سکتا ہے۔
5۔ بئر السعیدنی یا بئرِ موسیٰ
تقریباً ایک ہزار سال قبل اسلامی تہذیب کے ابتدائی جغرافیہ دان محمد ابو قاسم ابنِ حوقل نے لکھا تھا کہ مدین، جسے اب البدع کہا جاتا ہے، میں ایک کنواں تھا کہ جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سُسر یترو کے ریوڑ کو پانی پلایا کرتے تھے۔ مدین جنوبی عرب سے مصر کی جانب جانے والے لوبان کی تجارت کے قدیم راستے میں آنے والا بڑا شہر تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک اچھا مقام ثابت ہوا۔ وہ مصر سے اسی راستے سے یہاں آئے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کا کنواں جسے عرفِ عام میں بئر السعیدنی کہا جاتا ہے، چاندی جیسا شفاف پانی رکھتا ہے جو کہ زمین سے کئی مقامات سے باہر آ رہا ہے۔
6۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 12 چشمے
سعودی عرب کی وادیِ مقنا میں واقع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ چشمے ایک تاریخی مقام ہے۔ اس جگہ سے پانی کا نکلنا اور صحرا کے وسط میں کششِ ثقل کے خلاف بہنا حقیقتاً کسی معجزے سے کم نہیں۔ دنیا میں ہنوز بچ رہنے والا یہ قدیم ترین معجزہ ہے جو کہ یہاں آنے والے متعدد افراد کو ایک روحانی تجربے سے گزرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ نے بحیرۂ احمر کو عبور کر کے مقنا پہنچنے کے بعد انھیں چشموں میں سے کسی ایک سے پانی پیا تھا۔
پام کے خوبصورت درخت ان چشموں کو گھیرے ہوئے ہیں جب کہ ان کے شمال میں اس علاقے کے آثارِ قدیمہ میں سے کچھ کھنڈرات بھی موجود ہیں۔ چشموں کے قریب ہی کھجوروں کا ایک کھیت بھی موجود ہے چنانچہ یہاں آنے والے افراد تازہ کھجوریں بھی کھا سکتے ہیں اور خطے کے تپتے ہوئے گرم موسم میں کچھ دیر سورج سے بچنے کے لئے ان کھجوروں کے درختوں کے سائے میں پناہ بھی لے سکتے ہیں۔ دریں اثناء، اس علاقےمیں ہوٹل تقریباً مفقود ہیں چنانچہ بہتر یہ ہو گا کہ اگر آپ یہاں آ رہے ہیں تو پھر موسم کے مطابق کھانے پینے کی اشیا و دیگر ضروری سامان ساتھ لے کر آئیں۔
7۔ کیٹیلینا ہوائی جہاز کا ملبہ
کیٹیلینا ہوائی جہاز کی دُکھ بھری کہانی ایک سابق امریکی کاروباری شخصیت تھامس کینڈل کی داستانِ سفر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ تھامس کینڈل ماضی میں فوج کے زیرِ استعمال رہنے والے ایک جہاز کیٹیلینا، جسے بعد میں مسافر طیارے میں بدل دیا گیا تھا، میں اپنے خاندان سمیت سوار ہو کر دنیا کی سیر پر نکلا تھا۔ تھامس کینڈل 22 مارچ 1960ء کو نیوم کے مغربی کنارے پر راس الشیخ حُمید کے قریب ساحلِ عرب پر بحیرۂ احمر اور خلیجِ عقبہ کے مقامِ اتصال پر بلااجازت اُتر گیا۔ اس نے اور اس کے خاندان نے رات بھر وہاں کیمپنگ کی۔ اگلے روز مقامی قبائلیوں نے کیٹیلینا پر اس خوف سے فائر کھول دیا کہ یہ کہیں کوئی حملہ آور ہوائی جہاز نہ ہو۔ فائرنگ کے نتیجے میں کینڈل اور اس کا خاندان تو زخمی نہ ہوئے تاہم کیٹیلینا کو شدید نقصان پہنچا اور وہ اڑنے کے قابل نہ رہا۔ چنانچہ کینڈل اور اس کے اہلخانہ تو امریکہ واپس چلے گئے لیکن تب سے ان کا جہاز یہیں ہے جسے اب اہلِ نیوم سیاحوں کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر دِکھا رہے ہیں۔
8۔ کھائی یا وادیِ الشق
کھائی یا وادیِ الشق ضبا اور تبوک کے درمیان واقع سڑک سے تقریباً 4 کلو میٹر کے فاصلے پر شِقری نامی گاؤں کے قریب ہی واقع ہے۔ شق کا مطلب ہے پھاڑنا یا چیرنا اور قرائن سے لگتا ہے کہ یہ اس مقام کا بالکل درست نام ہے کیونکہ یہاں سے زمین براعظمی پلیٹوں کے تصادم کی وجہ سے حقیقتاً دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام کو سعودی عرب کی عظیم کھائی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ہر چند کہ الشق چٹانی زمین سے صرف 4 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن یہاں تک پہنچنے کیلئے فور ویل گاڑی ہی درکار ہوتی ہے کیونکہ اس کی جانب جانے والا راستہ ابتدا میں ریتلا ہوتا ہے اور پھر چٹانی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں عام گاڑی چلانا خاصا پیچیدہ اور مہارت طلب کام ہے۔ الشق کی ایک خُفیہ یا پُراسرار خوبی اس کی نام نہاد مشروم نما چٹان بھی ہے جو کہ اس کھائی میں تبدیل ہو جانے والی باریک سی وادی کے اندر ہی مستور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایسی چٹان ہے کہ جس کی بنیاد تنگ جب کہ اوپری حصہ وسیع ہے۔
9۔ عثمانی قلعہ المویلح
المویلح ضبا شہر کے شمال میں 40 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک قدیم نخلستان ہے جو کہ پہلی صدی ہجری میں النبک کے طور پر معروف تھا۔ یہ نخلستان عہدِ قدیم میں سعودی عرب حج کیلئے آنے والے مصری ساحلی زائرین کی گزرگاہ پر واقع مقامات میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے میں موویلی میں سلطان سلیمان عالی شان کے عہدِ حکومت کے دوران ایک بڑا قلعہ تعمیر کیا گیا۔ قلعہ الموویلی مصر سے آنے والے حجاج کے راستے پر تعمیر کیا جانے والا سب سے بڑا قلعہ تھا اور اسے 968 ہجری میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے کے صحن کو تمام اطراف سے متعدد کمروں نے گھیرا ہوا ہے جن میں سے کچھ حُجاج کی کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سامان کیلئے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتے تھے جب کہ کچھ کمرے سپاہیوں، ملازمین، قلعے کے کمان دار اور دیگر اہلکاروں کے زیرِ استعمال رہتے تھے۔