بجٹ اور اندرون و بیرونِ ملک مقیم پاکستانی

2,310

بجٹ میں خوشخبری کیا ہے؟

ہر فرد کا اور ہر مقام کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ یہ باقی دنیا میں ہوتا ہو گا کہ عوام خوش تب ہوتے ہیں جب اُنہیں حکومت کوئی خوشخبری سنائے یعنی اُن کے فائدے کی کوئی سکیم لے کر آئے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں اندرونِ مُلک مقیم پاکستانی تب خوش ہوتے ہیں جب سرکار انہیں کوئی بُری خبر نہ سنائے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی تب خوش ہوتے ہیں جب حکومت اُن سے چندہ نہ مانگے اور اُن کے اندرونِ مُلک مقیم رشتے داروں کو مزید غریب کرنے کے منصوبے نہ بنائے! بہ الفاظِ دیگر پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں عوام قربانیاں دینے اور قربان ہونے کیلئے پیدا ہوتے اور زندہ رہتے ہیں۔

اس بنیادی اصول کو ذہن نشین کر لینے کے بعد اگر ہم پاکستان کے وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2022ء – 2021ء کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ جان کر یقیناً خوشگوار حیرت ہو گی کہ حسبِ روایت اور حسبِ سابق جہاں یہ بجٹ ہم سے قربانیاں مانگ رہا ہے اور خزانۂ عامرہ کے خالی ہونے کا نوحہ کہہ رہا ہے وہیں یہ ہم پر خیرِ مستور کے نور کی جھلک بھی آشکار کر رہا ہے۔ کیسے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

بجٹ میں بُرا کیا ہے؟

چینی، سگریٹ، اشیائے تعیش، بیٹریاں، ٹائر، درآمدی کاسمیٹکس، درآمدی خوراک اور آن لائن خریداری مہنگی ہو گئی ہیں۔ سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 215 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ پٹرولیم لیوی میں 36 فیصد تک کے مشروط اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں تمام پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ موبائل فونز کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا  ہے۔ ایل پی جی پر بھی لیوی کی مد میں 2 ارب 8 کروڑ روپے مزید وصولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود عین ممکن ہے کہ سرکاری ماہرین معیشت آپ کو بار بار یہ مژردۂ جاں فزاء سناتے ہوئے نظر آئیں کہ اول تو بجٹ میں کسی چیز کی قیمت میں کوئی اضافہ کیا ہی نہیں گیا اور اگر کہیں ایسا کیا بھی گیا ہے تو اس سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم، سچ یہ ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافے، پٹرولیم لیوی میں اضافے اور ایل پی جی پر لیوی میں اضافے سے انگنت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خود بخود اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

بجٹ میں اچھا کیا ہے؟

قرآن پاک کی اشاعت میں استعمال ہونے والے کاغذ کی درآمد پر چھوٹ دے دی گئی ہے۔ آٹو ڈس ایبل سرنجز اور ان کے خام مال اور آکسیجن سلنڈرز کی درآمد پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔ پھلوں کے رس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ کتابوں اور رسالوں کی درآمد کو وِد ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ چھوٹی اور برقی گاڑیاں سستی کر دی گئی ہیں۔ مقامی طور پر تیار کردہ 850 سی سی تک کی گاڑیوں کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ان پر عائد سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے اور ان پر عائد ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرک گاڑیوں کے لئے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کر دی گئی ہے۔ الیکٹرک کاروں اور سی کے ڈی کٹس کی درآمد پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔

اِن تمام فیصلوں سے یقینی طور پر امیر، غریب اور متوسط تینوں طبقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فائدہ اٹھائیں گے لیکن بجٹ میں سامنے آنے والے یہ مثبت اقدامات صرف صارفین کے لئے مفید ہیں۔ چنانچہ یہ چند افراد کو وقتی فائدہ تو دیں گے لیکن قومی معیشت کو کوئی دور رس اور انقلابی فائدہ نہیں دیں گے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں چنداں کوئی مدد فراہم نہیں کریں گے۔ تاہم، بجٹ 2022ء – 2021ء میں حکومت نے کچھ ایسے اعلانات بھی کئے ہیں جو یقینی طور پر قومی معیشت پر، محنتی ساکنانِ وطن اور ان کے جفاکش سمندر پار مقیم عزیز و اقارب کی معاشی حالت میں بہتری لانے کا سبب بنیں گے۔ عین ممکن ہے کہ آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ حکومتِ پاکستان کے کوئی اقدامات بیرونِ ملک مُقیم پاکستانیوں کیلئے کس طرح مفید ہو سکتے ہیں؟ تو جناب اگر حکومت اوور سیز پاکستانیوں کے پاکستان میں مقیم رشتہ داروں کو روزی کمانے اور اپنے اخراجات خود اٹھانے میں کچھ معاونت فراہم کر دے تو کیا اس سے بڑھ کر اوور سیز پاکستانیوں کیلئے کوئی خوشی کی خبر ہو سکتی ہے؟

کیا بجٹ عوام کو روزگار کمانے میں مدد دیگا؟

بجٹ میں ہر خاندان کو صحت کارڈ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اپنے خاندان کا علاج معالجے کا ماہانہ خرچ دیکھیں اور سوچیں یہ کیسا فیصلہ ہے؟ زرعی آلات کی درآمد کو وِد ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ ٹریکٹرز بھی سستے کر دیئے گئے ہیں۔ خوردنی تیل، گھی اور فولاد کی صنعتوں کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ آئی ٹی کی خدمات کی برآمدات کیلئے اسلام آباد میں زیرو ریٹنگ کی سہولت دے دی گئی ہے۔ سپیشل ٹیکنالوجی زونز میں پلانٹس، مشینری، خام مال اور دیگر ساز و سامان کی درآمد کو ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ زرعی اجناس ذخیرہ کرنے والے گوداموں کو بھی ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل اور ہاؤسنگ سیکٹرز کیلئے بھی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کو ہر فصل کیلئے ڈیڑھ لاکھ تک کا بلاسود قرض دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

یہ وہ مراعات ہیں جو پیداواری شعبے کو دی جا رہی ہیں۔ یوں یہ درحقیقت اس امر کا اعتراف ہیں کہ اگر ہمیں پاکستان کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے، اگر ہمیں آئے روز دوست ممالک، آئی ایم ایف اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی روِش کو ترک کرنا ہے تو پھر ہمیں ملک میں صنعت، تجارت اور کاشتکاری سمیت تمام پیداواری شعبوں کو ترقی دے کر اس قابل بنانا ہو گا کہ ہمارا ملک اپنی ضرورت کی غذائی اجناس و دیگر اشیاء خود پیدا کر سکے اور زائد از ضرورت اشیاء برآمد کرنے لگے تاکہ ہمارا امپورٹ بل کم ہو اور ہم زرمبادلہ کی کمی کا شکار ہونے کی روش ترک کر دیں۔

دریں اثناء، جب مقامی صنعت، زراعت اور تجارت کو مراعات ملیں گی تو اس سے صرف چند ہزار یا چند لاکھ کاشتکار، صنعتکار اور تاجر خود فائدہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ وہ اپنے یہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی دیں گے اور سینکڑوں لوگوں سے خام مال و دیگر اشیائے ضرورت خریدنے کا سلسلہ شروع کرکے مارکیٹ میں مزید پیسہ بھی انجیکٹ کریں گے۔ یہ سفر یقینی طور پر لمبا اور صبر آزما ضرور ہے مگر اِس کی منزل بہرحال ملک کو محتاج یا خریدار ملک کی بجائے دینے والا یا پیداواری مُلک بنانا اور بیچارے ڈونرز خواہ وہ سمندر پار مقیم پاکستانی ہوں یا دوست ممالک اور مالیاتی ادارے، اِن سب پر سے بوجھ کم کرنا ہے۔

ویسے برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عین ممکن ہے کہ کچھ یارانِ نکتہ داں محتاجوں اور خریداروں کو یکجاء دیکھ کر ناگواری محسوس کر رہے ہوں تو ان کی خدمت میں بصد یاد دہانی عرض ہے کہ

مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج

کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More