بترا۔۔۔۔۔ اُردَن کا سُرخ گلاب
بترا کیا ہے اور کیسا ہے؟
سالوں پہلے جب پہلی بار سُنا تھا کہ
پھولوں کی نمائش میں اگر تو بھی ہوا تو
اِک بار گلابوں کو بڑی آگ لگے گی
تو یقین جانئے کہ پل بھر کو شاعر کے دلفریب خیال کو مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں جانا تھا مگر پھر جب اردن کے سرخ گلاب اور مشرقِ وسطیٰ کی قدیم تہذیبوں کے انگنت آثار کے امین مقام بترا (عربی: بترا۔۔۔۔۔ انگریزی: پیٹرا) کو دیکھا تو یوں لگا کہ شاید یہی وہ گلابوں سے بڑھ کر حسین جلوۂ فطرت ہو گا کہ جس کے نظارے نے شاعر کے تخیل کو اس قدر مہمیز دے ڈالی ہو گی کہ اس نے چشم تصور سے مہکتے اور آنکھوں کو خیرہ کرتے مخملیں گلابوں کو بھی رشک سے جلتا ہوا دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔!
بترا کے کھنڈرات کتنے پُرانے ہیں؟
بترا یا پیٹرا کی کہانی بہت پرانی ہے۔ اُردَن کے جنوب مغرب میں واقع اس قدیم شہر کے متنوع اور وسیع کھنڈرات کا ہوشرُبا سلسلہ یونانی اور رومی تہذیبوں کے ادوار سے تعلق رکھتا ہے۔ شہر کو وسیع وادیِ موسیٰ میں پہاڑوں کو کھود کر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قدر قدیم عہد میں کہ جب مشین نام کی چیز دنیا میں موجود ہی نہیں تھی، انسانوں کا پہاڑوں کو توڑ کو ان کے اندر عالی شان اور دلکش نقش و نگار سے آراستہ عمارتیں بنا لینا واقعی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ پیٹرا کو مشرق سے مغرب تک وادیِ موسیٰ دیگر علاقوں سے الگ کرتی ہے۔ وادیِ موسیٰ وہی مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ایک چٹان پر اپنا عصا مارا تو وہاں سے چشمے پھوٹ پڑے تھے۔
بترا کو سُرخ گلاب کیوں کہتے ہیں؟
یہ وادی منفرد سرخی مائل پتھروں سے بنی چٹانوں سے بھری ہوئی ہے۔ اِن چٹانوں کے رنگ کہیں سے سُرخ، کہیں سے جامنی اور کہیں سے زردی مائل ہیں۔ اسی وجہ سے انیسویں صدی کے بائبل کے ایک برطانوی عالم جوہن ولیم برگن نے بترا کو "وقت کی عمر سے نصف عمر والا گلاب جیسا سُرخ شہر” قرار دیا تھا۔ وادیِ موسیٰ کا جدید قصبہ قدیم بترا شہر کے ساتھ ہی واقع ہے جو کہ یہاں سال بھر تسلسل کے ساتھ آنے والے سیاحوں کے قیام و طعام و دیگر ضروریات کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
عالمی سیاحتی مراکز میں بترا کا کیا مقام ہے؟
بترا کو اُردَن کا قومی خزانہ کہا جاتا ہے۔ یہ ملک کا مقبول ترین سیاحتی مقام ہے۔ اسے 2007ء میں یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیئے جانے والے مقامات کی فہرست میں شامل کیا گیا اور دنیا کے 7 نئے عجائبات میں سے ایک قرار دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ صرف بترا کو دیکھنے کے لئے اُردن آتے ہیں۔ اس شہرِ گلاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ دنیا کے کورونا وبا کی لپیٹ میں آنے سے ذرا پہلے یعنی صرف 2019ء میں 10 لاکھ غیرملکی سیاح یہاں آئے تھے۔
‘الخزانہ’ کیا ہے؟
بترا میں سیاحوں کی بڑی تعداد بالخصوص ‘الخزانہ’ کو دیکھنے آتی ہے جو کہ جفاکشی میں یدِ طولیٰ رکھنے والے نباطیان (انباط) کے دور میں پہاڑوں کو کھود کر بنائی گئی ایک عمارت ہے۔ شاید ایسی عمارتوں کی تعمیر سفرِ انسانی کے انہیں حقیقی کرداروں کی ناقابل یقین محنت اور جوانمردی کے سبب ممکن ہوئی کہ جن کے طفیل تاریخ میں ‘شیریں’ کے ‘فرہاد’ جیسے افسانوی کرداروں کو امر ہونے کا موقع مل گیا! قدرت کی شان بھی نرالی ہے۔۔۔۔۔۔ جان جوکھوں میں ڈالنے والے ہزاروں جاں نثاروں کے نام تاریخ کے دھندلکوں میں گُم اور محض اہلِ فکر کے عالمِ تصور میں بسنے والے امر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
آہ۔۔۔۔۔۔! کیا یہ تاریخ کا المیہ ہے۔۔۔۔۔۔؟ ہماری کم علمی اور کوتاہ بینی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ یا اس امر کی دلیل کہ ہر ہیرے نے بالآخر وقت کی گہرائیوں میں رُل ہو جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ خیر آگے بڑھتے ہیں۔
بترا میں کیا کیا ہے؟
بترا میں قابلِ دید مقامات کی ایک بہت بڑی تعداد ہے اور ان میں سے بیشتر سیاحوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دینے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ یہاں سرخی مائل پہاڑوں کو کھود کر انگنت ایسی ایسی عمارات بنائی گئی ہیں کہ انہیں دیکھنے والوں کا بے اختیار جی چاہتا ہے کہ ہزاروں سال قبل اپنے شاہکار زمین کے حوالے کر کے زیرِزمین گُم ہو جانے والے ایک بار کہیں سے ان کے سامنے آ جائیں اور وہ ان کے نقاش ہاتھوں کو چوم لیں۔ یہاں بہت سے دلکش مندر ہیں اور کئی عالی شان مقبرے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں ‘سیق‘ بھی ہے جو کہ ایک نہایت عظیم الشان اور قابل دید جگہ ہے۔
اسے آپ بترا کا قدیم داخلی راستہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کا آغاز ایک ڈیم سے اور اختتام گنبد نما چٹانی سلسلے کی مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ ‘سیق’ ایک منقسم شدہ یا درہ نما چٹان ہے جو کہ 1200 میٹر لمبی، مختلف مقامات پر 3 سے 12 میٹر تک چوڑی اور 80 میٹر اونچی ہے۔ اس چٹان کا بیشتر حصہ قدرتی ہے۔ تاہم کچھ حصہ نباطیان یا انباط تہذیب کے افراد کے مجسمہ ساز اور نقاش ہاتھوں کی کاری گری کا مظہر بھی ہے۔ سیق کے آغاز پر آپ آج تک شہر کے قدیم داخلی دروازے کی باقیات دیکھ سکتے ہیں۔ سیق کے دونوں جانب وادیِ موسیٰ سے شہر کے اندر پانی لانے کے راستے بنے ہوئے ہیں۔
بترا کے قدیم شہر میں موجود تمام عمارات میں سے نصف تو روایتی طریقوں سے زمین پر تعمیر کی گئی تھیں جب کہ باقی نصف چٹانوں کو کھود کر بنائی گئی تھیں۔ شہر پہاڑوں سے گِھرا ہوا ہے جن میں بہت سے پُرپیچ راستے اور خلا ہیں۔ شہر کو پانی کی ترسیل کا نظام نہایت مہارت اور ذہانت سے بنایا گیا تھا جو کہ نباطیان، رومی اور بازنطینی ادوار میں بے آب و گیا گنجان آبادیوں کو پانی فراہم کیا کرتا تھا۔ بترا کے کھنڈرات دنیا کے زرخیز ترین اور سب سے بڑے آثارِ قدیمہ ہیں۔
بترا میں انباط کی تہذیب کے زمانے کے یادگاری مقبروں کی قطار کو کئی رُخوں والی یا کثیر پہلوی گلی کا نام دیا گیا ہے۔ بترا میں ایک بُلند پہاڑ کے دامن میں نشستوں کی تین قطاروں والا ایک قدیم تھیئٹر بھی موجود ہے۔