اُردَن
اُردَن سے متعلق بُنیادی حقائق کیا ہیں؟
اُردَن مشرقِ وسطیٰ کا ایک اہم مُلک ہے۔ اِس کا محلِ وقوع اِس کی تذویراتی اہمیت کو دوچند کر دیتا ہے کیونکہ اس کی سرحدیں خطے کے متعدد بڑے اور چند متحارب ممالک کے ساتھ بھی ملتی ہیں۔ اُردَن جزیرہ نما عرب کے شمال میں یعنی مغربی ایشیاء میں واقع ہے۔ اِس کے شمال میں شام اور مشرق میں عراق واقع ہے۔ جنوب اور جنوب مشرق میں سعودی عرب واقع ہے جب کہ فلسطین کا مغربی کنارہ، اسرائیل اور بحیرۂ مُردار اُردَن کے مغرب میں واقع ہیں۔ خلیجِ عقبہ اُردَن کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ جب کہ مصر اور لبنان بھی اس کے قریبی ہمسایہ مُمالک میں شامل ہیں۔ اُردن پر الھاشمیون خاندان کی حکومت ہے اور شاہ عبد اللہ دوم مُلک کے بادشاہ ہیں۔ ایک حالیہ اندازے کے مطابق ملک کی آبادی 65 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا رقبہ 89 ہزار 3 سو 42 مربع کلو میٹر ہے۔ اُردَن کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے تاہم یہاں 6 فی صد عیسائی بھی آباد ہیں۔ قومی زبان عربی ہے۔ تاہم، اِس عرب مُسلم ملک میں انگریزی بھی سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ اُردَن میں 98 فی صد عرب، 1 فی صد آرمینیائی اور 1 فی صد دیگر افراد بستے ہیں۔ مُلک کے وسطی اور شمالی حصے گنجان آباد ہیں۔ اُردنی دینار یہاں کی سرکاری کرنسی ہے جب کہ دارالحکومت عَمَان ہے۔ اُردَن کو یہ نام دریائے اُردَن کے نام پر دیا گیا ہے جو کہ اِس کی مغربی سرحد پر بہتا ہے۔ اُردَن کی سطح زمین زیادہ تر صحرائی اور پتھریلی ہے۔
اُردَن کے خطے کی کیا تاریخی اہمیت ہے؟
ہر چند کہ اُردَن ایک نوعمر مُلک ہے تاہم اس کی قدیم سرزمین نہایت شاندار اور متنوع تاریخ کی حامل ہے اور یہاں ہمیں بہت سی تہذیبوں کی باقیات ملتی ہیں۔ بائبل میں بیان کردہ تاریخ میں اس علاقے کا نمایاں کردار ملتا ہے۔ زمانہ قبل از مسیح کی موآب، جِلعاد اور ادوم کی قدیم سلطنتیں جن کا ذکر ہمیں بائبل میں ملتا ہے، اسی علاقے میں قائم تھیں جہاں آج اُردن موجود ہے اور اس کا معروف سُرخ پتھروں والا شہر بترا بھی اُنہیں ادوار کی یاد دلاتا ہے۔ یہ شہر سلطنتِ انباط کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ جب کہ سلطنتِ روم کے زمانے میں اس کے صوبے العربیہ بترائیہ کا بھی یہی دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔
1918ء تک وہ علاقے جہاں آج اُردن موجود ہے سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ تاہم، پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد جب مشرقِ وسطیٰ کا بڑا حصہ برطانیہ اور فرانس کے قبضے میں چلا گیا تو متعدد دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ، وہ علاقے بھی برطانیہ کے حصے میں آئے جہاں آج اُردن موجود ہے۔ تاہم، غیور مقامی عربوں نے برطانوی حکومت کو ایک دن بھی تسلیم نہ کیا اور گاہے گاہے ملک کے مختلف حصوں میں بغاوتیں ہوتی رہیں۔ بالآخر 22 مارچ 1946ء کو دریائے اُردن کے مشرقی حصے کے امیر شاہ عبد اللہ اول اور برطانوی حکومت کے مابین ٹریٹی آف لندن کے تحت اُردَن کو آزادی مل گئی۔
آزادی کے بعد اُردَن کن بڑے مراحل سے گزرا؟
1۔ 1946ء میں اقوامِ متحدہ نے اردن کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا۔
2۔ 1948ء میں برطانیہ اپنے زیرِ قبضہ فلسطینی علاقے کے بڑے حصے سے دستبردار ہو گیا اور وہاں یہوی ریاست اسرائیل قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی مسلمان اپنے علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے اور اپنے گھر بار چھوڑ کر مغربی کنارے اور اُردَن میں آ بسے۔
3۔ 1950ء میں اردن نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔
4۔ 1951ء میں شاہ عبد اللہ کو ان کے فلسطینی محافظ نے قتل کر دیا۔
5۔ 1952ء میں شاہ عبد اللہ کے صاحبزادے شاہ حُسین ملک کے نئے بادشاہ بنے۔
6۔ 1957ء میں اردن سے برطانوی افواج کا انخلاء مکمل ہو گیا۔
7۔ 1967ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں مزید فلسطینی مہاجرین اُردَن آ بسے۔
8۔ 71-1970ء میں بلیک ستمبر تنازعے کے دوران اُردَن نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے اپنے ملک میں موجود مسلح کیمپوں کو ختم کر دیا اور وہاں موجود جنگجوؤں کو اُردَن سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
9۔ 1994ء میں اُردَن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا اور یوں وہ 46 سال تک اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہنے کے بعد عرب اسرائیل تنازعے سے باہر نکل آیا۔
10۔ 1999ء میں شاہ حسین وفات پا گئے۔ اُن کے بڑے صاحبزادے اور ولی عہد عبد اللہ ملک کے نئے بادشاہ بن گئے۔
11۔ 2011ء میں عرب ملکوں میں جاری سیاسی انتشار کی لہر کے اثرات اردن میں بھی نظر آنے لگے اور عوام سیاسی اصلاحات سے محرومی اور مہنگائی جیسے مسائل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
12۔ 2015ء میں اُردن یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف قائم ہونے والے سعودی اتحاد میں شامل ہو گیا۔
اُردَن کی معاشی صورتحال کیسی ہے؟
اُردن کی معیشت ہمہ جہتی ہے یعنی اس کا کسی ایک شعبے پر انحصار نہیں ہے۔ تجارت اور مالیات کا ملک کے جی ڈی پی میں حصہ تقریباً ایک تہائی ہے۔ نقل و حمل، مواصلات، پبلک یوٹیلیٹیز اور تعمیرات کے شعبے ملک کے جی ڈی پی میں تقریباً 20 فی صد حصہ ملاتے ہیں۔ جب کہ کان کنی اور صنعتکاری کے شعبے بھی قومی معیشت میں تقریباً 20 فی صد حصہ ہی ملاتے ہیں۔ دریں اثناء، بیرونِ ملک مقیم اُردنی شہریوں کی جانب سے اندرونِ ملک بھجوائی جانے والی ترسیلاتِ زر بھی ملک میں زرِمبادلہ کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ہر چند کہ اُردَن کی معیشت بظاہر نجی شعبے میں ہونے والی سرگرمیوں پر منحصر ہے تاہم حقیقتاً سرکاری شعبہ قومی معیشت میں بڑا حصہ ملاتا ہے اور ملک کے جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ سرکاری وسائل ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ جب کہ ملک کے تقریباً ایک تہائی کارکنان بھی سرکاری شعبے ہی میں ملازمتیں کرتے ہیں۔
دریں اثناء 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اُردن اپنی کل سالانہ برآمدات میں سے تقریباً 26.3 فی صد امریکہ بھجواتا ہے، 10.8 فی صد سعودی عرب بھجواتا ہے، 10.4 فی صد انڈیا بھجواتا ہے، 10 فی صد عراق بھجواتا ہے، 3.9 فی صد یو اے ای بھجواتا ہے، 3.7 فی صد کویت بھجواتا ہے جبکہ باقی اشیاء قلیل تناسب میں دنیا کے دیگر ممالک کو بھجواتا ہے۔