اماراتی گرین ویزہ کی خصوصیات

812

گرین ویزہ کیوں متعارف کروایا گیا؟

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ملک کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر جاری تقریبات کے دوران گرین ویزہ کیٹیگری متعارف کروائی ہے۔ آپ اس ویزہ کو یو اے ای کا ان باصلاحیت اور غیرمعمولی قابلیتوں کے حامل غیرملکی کارکنان کے لئے ایک تحفہ یا خیرسگالی کا پیغام سمجھ سکتے ہیں کہ جو یہاں ملازمتیں یا کاروبار کر رہے ہیں اور اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔ آپ اس ویزہ کیٹیگری کو یو اے ای کی جانب سے اہل ہنر اور صاحبانِ کمال کے فکر و فن کا وہ اعتراف بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جس کی عدم موجودگی سے دلبرداشتہ ہو کر انہیں اپنے اپنے ممالک سے ہجرت کر کے امارات آنا پڑا ہے یا وہ یہاں آنا چاہتے ہیں۔

یہ ویزہ متعدد نئی خصوصیات یا انفرادی اوصاف کا حامل ہو گا۔ یہ خصوصیات اب سے پہلے متحدہ عرب امارات کی کسی ویزہ کیٹیگری میں موجود نہیں تھیں۔ متعدد نئی خصوصیات یا مراعارت کو اس ویزہ کیٹیگری کا جزو بنانے کا کلیدی مقصد ان باصلاحیت غیرملکی کارکنان، ماہرین و سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ جو یو اے ای آنا اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار تو ادا کرنا چاہتے ہیں مگر پہلے سے موجود ویزہ کیٹیگریز کی چند سخت شرائط کے سبب ایسا نہیں کر پا رہے۔

گرین ویزہ کی انفرادیت کیا ہے؟

یوں تو گرین ویزہ میں ایسا بہت کچھ ہے جو اب سے پہلے متحدہ عرب امارات کے کسی ویزہ میں نہ تھا تاہم اس کی سب سے منفرد بات کام کرنے کے اجازت نامے اور رہائشی یا اقامتی ویزہ کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے۔ اب سے پہلے یو اے ای میں اقامت یعنی رہائش اور کام باہم لازم و ملزوم تھے یعنی رہائشی ویزے صرف کارکنان ہی کو جاری کئے جاتے تھے اور کام ختم ہو جانے کی صورت میں یعنی ملازمت سے برخواست کر دیئے جانے یا کاروبار ختم ہو جانے کی صورت میں رہائشی ویزے بھی منسوخ ہو جاتے تھے اور غیرملکی کارکنان کو اپنے آبائی ممالک کو لوٹنا پڑتا تھا۔ کیونکہ ماضی کی تقریباً تمام ویزہ کیٹیگریز میں آجر یا ملازمت دینے والا ویزہ لینے والے کے سپانسر یا کفیل کا کردار ادا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک ملازمت ختم ہو جانے کی صورت میں وہاں مقیم غیرملکی کارکنان کو یا تو فوری طور پر دوسری ملازمت ڈھونڈنا پڑتی تھی یا ملک چھوڑنا پڑتا تھا۔ تاہم، گرین ویزہ حاصل کرنے والوں کو ایسی کسی بحرانی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ ان کا کوئی سپانسر یا کفیل نہیں ہو گا۔ گویا وہ کسی فرد یا کمپنی کے محتاج نہیں ہوں گے بلکہ ‘خود کفیل’ ۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے سپانسر خود ہوں گے۔ مزید برآں، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے والدین اور 25 سال سے کم عمر بچوں کے ویزوں کو بھی خود سپانسر کر سکیں گے۔

یاد رہے کہ ماضی کی بیشتر اماراتی ویزہ کیٹیگریز میں نہ صرف یہ کہ والدین کا ویزہ سپانسر کروانا ذرا مشکل کام ہے بلکہ بچوں کے ویزے بھی والدین 25 سال کی عمر تک سپانسر نہیں کر سکتے۔ گزشتہ کیٹیگریز میں والدین بیٹیوں کے ویزے اس وقت تک سپانسر کر سکتے ہیں جب تک کہ ان کی شادی نہ ہو جائے اور بیٹوں کے ویزے 18 سال کی عمر تک سپانسر کر سکتے ہیں۔

گرین ویزہ سے کون کون مستفید ہو گا؟

گرین ویزہ سے متعلق اس وقت ذہنوں میں گردش کرنے والا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کون کون اس سے مستفید ہو سکے گا؟ متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے اب تک بتائی گئی تفصیلات کے مطابق اس ویزہ کیٹیگری سے یو اے ای آنے کے حسبِ ذیل غیرملکی خواہشمند خواتین و حضرات فائدہ اٹھا سکیں گے:

1۔ ایسے ماہرین یا انتہائی تربیت یافتہ افراد کہ جن کا تعلق کسی ایسے شعبے سے ہو کہ جس سے وابستہ اہلِ ہُنر کی متحدہ عرب امارات کی مارکیٹ کو بُہت ضرورت ہو۔

2۔ متحدہ عرب امارات میں صنعت، تجارت، زراعت، کان کنی، تعلیم، صحت، تعمیرات یا کسی بھی اور شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند سرمایہ کار یا کاروباری شخصیات۔

3۔ ایسے بے انتہاء قابل، ذہین اور محنتی طلبہ اور گریجوایٹس کہ جن کا تعلیمی کیریئر نہایت شاندار ہو۔

4۔ ایسے فری لانسرز کہ جو اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں سے خود کو یو اے ای کی مارکیٹ کے لئے موزوں معاونین ثابت کر سکتے ہوں۔

5۔ ایسی بیوہ خواتین یا اپنے شریکِ حیات سے علیحدگی اختیار کر چکنے والے مرد و زن جنہیں سماجی تحفظ کی ضرورت ہو یا جو یو اے ای کے معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہوں۔

6۔ یو اے ای میں مستقل یا طویل المعیاد رہائش اختیار کرنے کے خواہشمند غیرملکی کارکنان، طلبہ اور سرمایہ کاروں وغیرہ کے علاوہ گرین ویزہ کیٹیگری اپنے جلو میں امارات آنے کی خواہش رکھنے والے کچھ مزید غیرملکییوں کے لئے بھی کچھ خوشخبریاں لا رہی ہے جن میں سے سب سے بڑی خوشخبری اُن کاروباری خواتین و حضرات کے لئے ہے کہ جنہیں ماضی میں یو اے ای کاروباری دورے پر آنے کی صورت میں صرف 3 ماہ یہاں رہ سکنے کا اجازت نامہ دیا جاتا تھا۔ اب یہاں کاروباری دورے پر آنے والے غیرملکی مرد و زن امارات میں 6 ماہ تک بلا روک ٹوک قیام کا اجازت نامہ حاصل سکیں گے۔

7۔ گرین ویزہ کیٹیگری میں ریٹائرڈ اور بے روزگار افراد کو بھی ہر ممکن مدد اور سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ویزہ کے حامل افراد کو ریٹائرمنٹ یا ملازمت سے فراغت کے باوجود 6 ماہ تک یو اے ای میں مقیم رہنے کی اجازت ہو گی تاکہ وہ اس دوران اطمینان سے اپنے روزگار کا کوئی متبادل انتظام کر سکیں، نئی ملازمت تلاش کر سکیں، گھوم پھر سکیں یا اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔ واضح رہے کہ امارات کے دیگر ویزہ ہولڈرز کو ملازمت ختم ہو جانے یا ریٹائرمنٹ کے بعد صرف 30 روز تک یہاں رہنے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر وہ اس دوران اپنے روزگار کا کوئی متبادل انتظام نہ کر سکیں تو انہیں اپنے آبائی ممالک میں واپس جانا پڑتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More