پاک امارات دفاعی تعلقات

1,294

پاک امارات دفاعی تعلقات کا آغاز کب ہوا؟

پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد سے بالعموم اور 60 کی دہائی سے بالخصوص خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات کے دفاع کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ سعودی عرب، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات، اردن اور لیبیا میں پاک افواج کے دستے کئی دہائیوں تک تعینات رہے جن کا مقصد ان ریاستوں کو اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے میں مدد دینا تھا۔

پاک امارات دفاعی تعاون کی نوعیت کیا تھی؟

ابتداء میں پاکستان نے یو اے ای کو 2 طرح کا دفاعی تعاون فراہم کیا۔ ایک تو متحدہ عرب امارات کے قیام کے فوراً بعد پاکستان نے دفاعی ماہرین پر مبنی کچھ ٹیمیں اور اپنی مسلح افواج کے کچھ دستے وہاں بھجوائے تاکہ وہ کسی بھی ممکنہ اندرونی یا بیرونی خطرے کی صورت میں نوزائدہ ملک کی حفاظت اور مقامی دفاعی حکام کی معاونت کر سکیں۔ دوسرے پاکستان کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو جدید اور نفیس دفاعی ساز و سامان بھی فراہم کیا گیا۔

شیخ زاید اور ایوب خان میں کیا طے پایا؟

برطانیہ کی جانب سے خلیجی ریاستوں کو آزادی دینے سے چند سال قبل، 1968ء میں متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زاید بن سلطان النھیان نے اس وقت کے صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان سے درخواست کی کہ پاک فوج ابو ظہبی کی فوج کو تربیت دے تاکہ اُن کی فوج برطانوی افواج کے خطے سے انخلاء کے وقت اُن سے کمانڈ لینے کے قابل ہو سکے۔ یوں متحدہ عرب امارات کے قیام سے چند سال پہلے ٹروسیئل سٹیٹس ہی کے زمانے میں پاکستان اور ابو ظہبی کے مابین دفاعی تعلقات کا آغاز ہو گیا تھا اور یہ سلسلہ 70ء کی دہائی کے وسط تک بغیر کسی رسمی تحریری معاہدے کے یونہی دوستانہ بنیادوں پر چلتا رہا۔

پاک امارات رسمی دفاعی تعاون کب شروع ہوا؟

70ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان اور یو اے ای کے مابین دفاعی پروٹوکول پر دستخط کئے گئے جس کے بعد سے آج تک یہ دفاعی تعاون بدستور جاری ہے۔ پاک فوج کے متعدد افسران کو متحدہ عرب امارات کی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا تاکہ وہ اماراتی فوجیوں کی تربیت کر سکیں۔ 80ء کی دہائی میں یو اے ای نے پاکستان سے بڑی تعداد میں چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود خریدا۔

دفاعی مشاورتی گروپ کب اور کیوں قائم کیا گیا؟

جون 1994ء میں پاکستان اور یو اے ای نے دو طرفہ دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے دفاعی مشاورتی گروپ کے قیام کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اِس گروپ کے قیام کا مقصد فوجی مشقوں، تربیت، حساس معلومات کے تبادلے اور مشترکہ دفاعی پیداوار کے آغاز کے ذریعے دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ دریں اثناء، متحدہ عرب امارات میں یو اے ای آرمر ٹریننگ سکول بھی پاکستان نے قائم کیا اور یہاں مقامی فوجی کمانڈروں کی تربیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔ یہی نہیں، پاکستان نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور ملک میں موجود دیگر فوجی تربیتی اداروں میں بھی متحدہ عرب امارات کی فوجی قیادت کو تربیت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے۔ مزید برآں، یو اے کی حکومت پاکستان سے الخالد ٹینک خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ 2006ء میں پاکستان اور یو اے ای نے باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے دفاعی تعاون کے نئے معاہدے پر دستخط کئے۔

پاکستان اور اماراتی فضائیہ کے مابین کیسے تعلقات ہیں؟

عہدِ آغاز میں متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کو پاکستان ایئر فورس کی اضافی شکل سمجھا جاتا تھا۔ یو اے ای کی آزادی کے بعد ملک کے بانی شیخ زاید بن سلطان نے پاک فضائیہ کے ایئر کموڈور صدر الدین کو ابو ظہبی ایئر فورس کا چیف آف سٹاف تعینات کیا۔ 2004ء میں جمع کئے گئے ڈیٹا کے مطابق، اُس برس پاکستان کے 55 فلائنگ انسٹرکٹرز متحدہ عرب امارات کی ایئر فورس میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ یہی نہیں، اُسی برس پاک نیوی کے 10 اور پاک آرمی کے متعدد افسران بھی یو اے ای کی مسلح افواج میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

کیا حساس دفاعی امور میں امارات نے پاکستان کا ساتھ دیا؟

متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ حساس سکیورٹی معاملات میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ جب پاکستان اور امریکہ کے مابین ایف 16 طیاروں کی خریداری کے سلسلے میں بات چیت جاری تھی تو انڈیا سمیت متعدد ممالک پاکستان کو ان جدید جنگی طیاروں کی فروخت کے امریکی فیصلے کی مخالفت کر رہے تھے اور امریکہ پر پاکستان سے ان طیاروں کی فروخت کا معاہدہ نہ کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے تاہم،متحدہ عرب امارات نے اس معاملے میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور اپنے دفاع کی مضبوطی کیلئے ان طیاروں کی خریداری کو پاکستان کا حق قرار دیا۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امارات نے کس کا ساتھ دیا؟

دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کو بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی عوام اور سکیورٹی فورسز نے اس جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اپنے ملک اور خطے کو دہشتگردی سے پاک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس جنگ کے دوران متحدہ عرب امارات نے مسلسل نہ صرف پاکستان کی اخلاقی، سفارتی اور مالی مدد کی بلکہ دونوں ملکوں نے دہشتگردوں کے خلاف انٹیلی جنس شیئرنگ کو بھی یقینی بنایا۔

کیا پاکستان اور امارات میں کبھی اختلاف ہوا؟

2015ء میں یمن میں سعودی ایران تنازعے کے دوران سعودی عرب چاہتا تھا کہ پاکستان یمن میں ایران کے خلاف لڑائی میں اس کی مدد کیلئے اپنی افواج بھیجے۔ متحدہ عرب امارات بھی سعودی مؤقف کی حمایت کر رہا تھا مگر پاکستان مسلم ممالک کی باہمی جنگ میں فریق بننے کے بجائے ان میں صلح صفائی کروانا چاہتا تھا۔ یہ اختلاف رائے پاکستان اور امارات کے مابین وقتی ناراضگی کا سبب بنا مگر پھر جلد ہی دونوں نے ایک دوسرے کے اختلاف رائے کے حق کے احترام کا فیصلہ کیا۔

اسی طرح 2019ء میں جب پاکستان نے ملائیشیاء اور ترکی کے ساتھ کوالالمپور سمٹ میں شرکت کا فیصلہ کیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے اس فیصلے پر اظہارِ ناراضگی کیا۔ چنانچہ پاکستان نے آخری لمحات میں ان دوست ممالک کی خوشی کی خاطر کوالالمپور سمٹ میں شرکت کرنے کا خیال ترک کر دیا جس کے فوراً بعد یو اے ای کے ولی عہد خیر سگالی کے اظہار کیلئے جنوری 2020ء میں پاکستان آئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More