بجٹ 2022ء-2021ء اور اوور سیز پاکستانیز
موبائل کالز مہنگی نہ کرنے کا فائدہ کسے ہو گا؟
جب بھی دل سے دل ملنے لگتے ہیں، لائن کٹ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شکوہ صرف اہل دل ہی نہیں ہر غریب، ہر تہی دست اور ہر مسافر کی زبان پر بھی اکثر رہتا ہے اور اس کا سبب یوں تو چاچا قیدو یا مصروف نیٹ ورک یا ناتواں سگنلز میں سے کوئی ایک بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم عمومی سبب بیلنس کا ختم ہونا ہی ہوتا ہے اور یہ سمجھنا بھی کوئی زیادہ مشکل بات نہیں کہ کال کا ریٹ جتنا زیادہ ہو گا، بیلنس اتنا ہی جلد ختم ہو گا اور اتنی ہی جلدی پیار کرنے والے صوتی طور پر بھی بچھڑ جائیں گے مگر بھلا ہو وزیر اعظم پاکستان کا کہ جنہوں نے اس عالمِ پیری میں بھی ایک بار پھر خود کو چاچا قیدو کی بجائے ہیرو ثابت کر ڈالا ہے!
واقعہ کچھ یوں ہے کہ چاچا قیدو۔۔۔۔ معاف کیجئے گا! وزیر خزانہ۔۔۔۔ شوکرت ترین نے وفاقی بجٹ 2022ء – 2021ء میں موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر اندھا دھند ٹیکسز عائد کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ فون کالز اور انٹرنیٹ اب بنیادی ضرورت بن چکے ہیں لہٰذا ان کی قیمت میں اضافے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔ وزیر اعطم کے اس فیصلے کا فائدہ یوں تو تقریباً ہر پاکستانی کو ہو گا مگر دیارِ غیر میں مقیم اہل وطن اور اندرون ملک مقیم ان کے پیاروں کیلئے بطور خاص باعث اطمینان ہو گا کہ وہ بدستور کم پیسے خرچ کرکے ایک دوسرے کو سنتے اور دیکھتے رہیں گے۔
اوور سیز پاکستانیز کو بجٹ میں کیا ملا؟
سچ تو یہ ہے کہ سمندر پار مقیم پاکستانی ہوں یا اندرونِ ملک بسنے والے افراد، نئے مالی سال کا بجٹ بذاتِ خود نہیں بلکہ ہماری انفرادی ترجیحات یہ فیصلہ کریں گی کہ آنے والے دن ہمارے لئے معاشی فوائد لا رہے ہیں یا نقصان یا ہماری زندگیاں جوں کی توں گزریں گی۔ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
اگر تو آپ ایک شاہانہ طرز زندگی کے قائل ہیں اور جو کمایا وہ اڑایا کے ‘سنہری اصول’ پر عمل کرنا پسند کرتے ہیں تو پھر تو آپ کیلئے خبر یہ ہے کہ آپ کی یا آپ کے پیاروں کی خون پسینے کی کمائی اب مزید پانی کی طرح بہتی چلی جائے گی کیونکہ عمران سرکار نے درآمدی میک اپ، خوراک، شیمپو اور پرفیومز مہنگے کر دیئے ہیں۔ سگریٹ اور لگژری گاڑیاں بھی مہنگی کر دی ہیں۔ آن لائن خریداری پر سیلز ٹیکس جبکہ موبائل فونز اور ٹائروں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے۔ گویا آپ آرائشِ جمال سے لے کر مشروباتِ مغرب تک پُرشکوہ طرزِ حیات کے جتنے قریب ہوتے چلے جائیں گے، اُتنی ہی غُربت آپ کے قریب آتی چلی جائے گی کیونکہ شاہانہ طرزِ زندگی کی حوصلہ شکنی پر مائل یہ بجٹ آپ کی آمدن اور اخراجات میں موجود توازن کو بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے اور آپ اپنے اندرون یا بیرون ملک مقیم کمانے والے اہلخانہ سے ہل من مزید کا تقاضا کرنے پر اور جواباً صبر کی تلقین سننے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب اگر آپ اینٹرپرینیورل مائنڈ سیٹ یا کاروباری سوچ کی نعمت سے مالا مال مگر سرمائے سے محروم یا محدود سرمائے کے حامل ہیں تو پھر یہ بجٹ آپ کیلئے کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ اگر آپ بیرونِ ملک مقیم کم آمدن والے پاکستانی ہیں تو یہ بجٹ آپ کو وطن واپس آ کر اپنا کاروبار شروع کرنے میں معاونت فراہم کرنے پر تیار ہے اور اگر آپ اندرونِ ملک مقیم ایسے شہری ہیں جو اپنے خاندانوں کے کمانے والے افراد پر بوجھ کم کرنے کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر سرمائے سے محرومی کے سبب ایسا نہیں کر پا رہے تو بھی یہ بجٹ آپ کو معاونت فراہم کرنے کیلئے تیار ہے کیونکہ اِس بار حکومتِ پاکستان بڑے اور کمرشل بینکس کے ذریعے بڑوں کو قرض لینے اور ‘غائب’ ہو جانے کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے اخوت اور نیشنل رورل سپورٹ جیسے چھوٹے فلاحی اداروں کو قرض دے کر ان کے ذریعے ہر شہری گھرانے کو اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے 5 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے دینے کا بہت بڑا پروگرام لے کر آئی ہے۔
یہی نہیں، ایسے افراد جو محدود سرمائے کے سبب اپنا گھر خریدنے سے قاصر ہیں، انہیں کم آمدن والی ہاؤزِنگ سکیمز میں اپنا گھر لینے کیلئے 20 لاکھ سستے قرض دیئے جائیں گے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ اپنی بچت، ذہانت، ہنر اور فرصت کو انویسٹ کرکے ایک کامیاب کاروباری انسان بننا چاہتے ہیں تو یہ بجٹ آپ کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ اگر آپ اپنے وطن میں اپنے گھر سے محروم ہیں تو بھی یہ بجٹ آپ کو اپنا گھر بنانے کا بہترین موقع فراہم کر رہا ہے اور اگر آپ شاہانہ طرزِ زندگی اپنا کر غریب ہونا چاہتے ہیں تو بھی عمران حکومت آپ کی ہر ممکن ‘مدد’ کو تیار ہے!
سرمایہ کاروں کیلئے بجٹ میں کیا ہے؟
ہو سکتا ہے کہ ہماری اب تک کی ‘خوشخبریاں’ سمندر پار اور اندرونِ ملک مقیم اہلِ ثروت پاکستانیوں کو دلبرداشتہ کر رہی ہوں اور وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ شوکت ترین صاحب نے اپنے بجٹ میں ان کے ساتھ بالکل وہی سلوک کیا ہے جو عمران خان صاحب نے جہانگیر ترین صاحب کے ساتھ کیا ہے۔۔۔۔۔! مگر یقین جانئے ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔۔ ویسے تو خیر ویسا بھی کچھ نہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔۔۔۔ مگر بہرحال۔۔۔! ایسا تو بالکل ہی کچھ نہیں!
اگر آپ اپنے ملک میں بڑی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، ملک کی برآمدات بڑھانا چاہتے ہیں، مُلک کا امپورٹ بل کم کرنا چاہتے ہیں اور بار بار ڈالر مانگنے کیلئے آئی ایم ایف اور دوست ملکوں کے دروازوں پر دستک دینے سے پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو آپ کیلئے خبر یہ ہے کہ تعمیراتی صنعت سے اپنی مُحبت کیلئے مشہور عمران حکومت نے اب دیگر صنعتوں کیلئے بھی اپنے دل کے دروازے کھول دیئے ہیں اور مالی سال 2022ء – 2021ء کے بجٹ میں میں ٹیکسٹائیل سے متعلق اشیاء کی 164 ٹیرف لائنز پر اضافی کسٹم ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔ دریں اثناء، سپیشل ٹیکنالوجی زونز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے پلانٹس، مشینری، ساز و سامان اور خام مال کی درآمد پر بھی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
یوں اگر آپ بیرون ملک سے واپس پاکستان آ کر یا یہاں موجود اپنے رفقاء کی مدد سے اندرونِ ملک سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، کوئی بڑی صنعت لگانا چاہتے ہیں، ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اپنی طرح مزید پاکستانیوں کو رزق کمانے کیلئے اپنے پیاروں سے دور دیار غیر جانے کی تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں تو بھی یہ بجٹ آپ کو مستقل مثبت اشارے دے رہا ہے کیونکہ یہ بہرحال ایک ایکسپورٹ فرینڈلی اور امپورٹ دُشمن بجٹ ہے اور اگر پاکستان اور اہل پاکستابن کو واقعی اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں خود کو کنزیومر سوسائٹی سے پروڈیوسر سوسائٹی میں اور امپورٹ بیسڈ ملک سے ایکسپورٹ بیسڈ ملک میں بدلنا تو پڑے گا ہی۔ تو پھر کیوں ناں یہ کام ابھی سے شروع کر دیا جائے؟